گندم کی خریداری نہ ہونے کے باعث قیمتیں مزید گر گئیں۔کسان سستی گندم بیچنے پر مجبورہو گئے۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں گندم کی خریداری نہ ہونے کے باعث کسان فی من گندم 28 سو روپے تک بیچنے پر مجبور ہوگئے۔جبکہ تاحال حکومت پنجاب اور کسانوں کے درمیان گندم کی خریداری پر معاملات ڈیڈلاک برقرار ہیں۔ محکمہ خوراک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چھوٹے کسانوں کو چند دن تک کسان کارڈز کے ذریعے امداد دینی شروع کر دیں گے ۔
خیبرپختونخوا حکومت کا بڑا فیصلہ :
دوسری جانب گزشتہ روزخیبرپختونخوا حکومت نے پنجاب کے کسانوں سے بھی گندم خریدنے کا فیصلہ ہے۔ اس حوالے سے صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ مقامی کسانوں سے گندم خریداری کا ہدف پورا نہ ہوا تو پنجاب کے کسان بھی ہمیں گندم فروخت کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے گندم خریداری کے حوالے سے ایک اعلی سطح اجلاس کی صدارت کی۔اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ گندم خریداری مانیٹرنگ کمیٹی میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر، اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر، نمائندہ ضلعی انتظامیہ، ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر ایکسٹینشن، نمائندہ فلور ملز ایسوسی ایشن، نیب اور اینٹی کرپشن حکام شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کا زور ٹوٹنے لگا، 20 کلو آٹے کا تھیلا مزید سستا ہو گیا
مشیر خزانہ خیبرپختونخواہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں گندم خریداری کیلئے ایسا میکنزم تیار کیا گیا ہے جس میں ایک پارٹی سے ایک فکسڈ مقدار سے زیادہ گندم نہیں خریدی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ پارٹیوں اور زمینداروں کو موقع مل سکے۔خیبرپختونخواہ حکومت نے سخت مالی حالات کے باوجود 6 لاکھ ٹن گندم 3,900 فی من خریداری کا اعلان کردیا ہے جس میں سے 3 لاکھ ٹن گندم کی ترجیح مقامی کسان کو دی جائے گی۔ اور اگر ہدف پورا نہیں ہوا تو پنجاب کا کسان خیبر پختونخواہ حکومت کو گندم بیچ سکتا ہے، خیبر پختونخواہ حکومت اب تک تمام صوبوں پر سبقت لے چکی ہے۔
پنجاب، سرکاری خریداری کا باب ہمیشہ کیلئے بند:
علاوہ ازیں پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری کا باب ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا، محکمہ خوراک کسانوں سے گندم نہیں خریدے گا، حکومت چھوٹے کسانوں کو کیش سبسڈی دینے کی تجویز پر مزید غور کرے گی۔ گزشتہ روز پنجاب کا بینہ کے اجلاس میں اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا کہ محکمہ خوراک کسانوں سے گندم نہیں خریدے گا، گندم کے چھوٹے کاشتکاروں کو کیش سبسڈی دینے پر غور کیا جائے گا۔ قومی موقر نامے میں شائع رپورٹ کے مطابق بار دانہ ایپ میں درخواست دینے والے 6 ایکڑ والے 1 لاکھ 20 ہزار کسانوں کو 3900 روپے سرکاری امدادی قیمت اور اوپن مارکیٹ اوسط قیمت کے تناسب سے سبسڈی دینے پر مزید غور کا فیصلہ کیا گیا تا ہم بعض حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم پر کیش سبسڈی دینے پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے ۔
ذرائع کے مطابق محکمہ خوراک پنجاب کے پاس موجود 22 لاکھ 22 ہزار ٹن گندم کی نکاسی کیلئے چند ماہ بعد فلور ملز کو سرکاری لاگت سے قدرے کم قیمت پر فروخت کر کے سٹاک زیرو کیا جائیگا۔ سرکاری گندم کی نکاسی کیلئے طریقہ کار ابھی طے ہونا ہے۔اس وقت محکمہ کی لاگت 5 ہزار روپے فی من کے لگ بھگ آرہی ہے ، ستمبر یا اکتوبر میں اگر محکمہ اپنے سٹاک خالی کرنے کیلئے فلور ملز کو گندم فروخت کرنے کا آغاز کرتا ہے تو اسے آخری مرتبہ لاگت سے کم قیمت پر نکاسی کر کے خسارہ برداشت کرنا ہو گا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق فلور ملز کیلئے سرکاری گندم کو ٹہ کا نظام ختم ہونے کے بعد سر کاری گندم خریداری کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پنجاب میں گزشتہ 15 برس کے دوران سرکاری گندم پر 562 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی لیکن سرکاری گندم کو نہ نظام کے تحت سالانہ اربوں روپے کی خوردبرد ہوئی ، عوام کو مکمل ریلیف نہیں ملا۔ دوسری جانب گندم آٹا مارکیٹ کو آزاد کرنے سے اس وقت 40 کلو آٹا تھیلا قیمت 2 ہزار روپے کم ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ سال گندم کی فصل کاشت نہیں کریں گے، کسان
مزید بر آں رواں برس پنجاب میں گندم کی پیداوار نے تمام ملکی ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ،امسال صوبے میں 2 کروڑ 42 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی ہے جو گزشتہ سال سے 30 لاکھ ٹن زیادہ ہے۔ اس مرتبہ فی ایکڑ پیداوار میں 10 سے 20 من تک اضافہ ہوا ہے جبکہ محکمہ زراعت کے مطابق پنجاب کی مجموعی فی ایکڑ پیداوار کا اوسط 39 من ہے۔
پنجاب میں رواں برس 1 کروڑ 74 لاکھ ایکٹر پر گندم کاشت کی گئی جبکہ گزشتہ برس 1 کروڑ 60 لاکھ ایکڑ پر گندم کاشت ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم کی جانب سے گندم امپورٹ کیلئے تشکیل دی جانے والی اعلی سطحی کمیٹی نے گزشتہ روز بھی تحقیقات جاری رکھیں اور اہم شواہد حاصل کئے ہیں، کمیٹی کو چند سرکاری افسروں کی سنگین غفلت اور مبینہ ملی بھگت کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
دوسری جانب اس وقت پنجاب میں گندم خریداری کے شدید بحران اور بمپر کراپ پیداوار کے دوران بھی کیماڑی بندرگاہ پر ایک بحری جہاز سے ہزاروں ٹن گندم کو اتار جارہا ہے ، سرکاری حکام کے مطابق 31 مارچ تک بحری جہاز پاکستانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی ڈیڈ لائن تھی، اس جہاز کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ کب سمندری حدود میں داخل ہوا اور اتنی تاخیر سے گندم کیوں اتاری جارہی ہے۔