سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رشوت دینے کی رقم چھپانے کے کیس میں گواہوں و دیگر افراد پر الزامات عائد نہ کرنے کے حکم کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیاگیا۔
ان پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کردیا گیا اور انہیں انتباہ جاری کیا گیا ہے کہ مزید حکم عدولی پر جیل بھی بھیجاجا سکتا ہے ۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جاری مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جسٹس جووان میرکان نے عدالت کے حکم کی خلاف ورزی پران پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ عائد کیا اور کہا کہ اگر خلاف ورزی جاری رکھی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل بھیجنے کے لیے غور کیا جائے گا۔ جج نےاپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد جرمانہ کافی نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ جرمانہ عائد کرنے کے لیے اس عدالت کے پاس اختیار نہیں ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ عدالت اپنے قانونی احکامات کی جان بوجھ کرخلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی اور اگر حالات کے مطابق ضروری سمجھا گیا تو جیل بھیجنے کی سزا بھی سنا نے میں دیر نہٰن کر یںگے۔ عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آن لائن د ئیےگئے 9 مختلف بیانات پر جرمانہ عائد کیا۔
اور فی بیان ایک ہزار ڈالر جرمانہ لگایا گیا ہے اور کہا کہ گواہوں اور کیس میں دیگر افراد پر الزامات عائد کرنے سے روکا گیا تھا لیکن وہ باز نہیں آئے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پروسیکیوٹر نے ممکنہ خلاف ورزی کے 10 پوسٹیں عدالت کے سامنے رکھی تھیں، مذکورہ پوسٹیں 10 اپریل سے 17 اپریل کے دوران کی گئی تھیں اور ان میں ایک مضمون بھی شامل تھا، جس میں ان کے سابق وکیل مائیکل کوہن کو عادی جھوٹاقرار دیا گیا تھا۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کی جانب سے عائد کئے گئے جرمانے پر خبرایجنسی کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا تاہم وہ کہتے رہے ہیں کہ یہ حکم ان کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار ہیں اور ان کے خلاف پورن اسٹار اسٹورمی ڈینئیلز کو 2006 میں پیش آنے والے واقعے پر خاموش رہنے کے لیے ادا کئے گئےان پر ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے اور عدالت میں سماعت ہو رہی ہے۔