وزیردفاع خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ ملک ریاض کو پاکستان لایا جائے گا اور ان پر تمام مقدمات چلائے جائیں گے ۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے کہا کہ میں نے کئی بڑے اینکرز کے سامنے ملک ریاض پر سوالوں کے جواب دئیے جو بعد پروگراموں سے کاٹے گئے، ہم سیاست دان تو آپ کا سافٹ ٹارگٹ ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ملک ریاض صاحب کہتے تھے میں باہر کاروبار کرنے کو حرام سمجھتا ہوں، اب وہ کہتے ہیں میں دبئی میں چھا گیا ہوں لوگ کیسے اپنی زبان سے پھرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ادارے حرکت میں نہ آئیں تو اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے، میں جب بات کرتا ہوں تو میری بات کو روکنے کیلیے میڈیا پر دولت کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے ، اب حکومت ملک ریاض پر ہاتھ ڈالے گی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ملک بھر میں قائم بحریہ ٹاؤنز کے معاملے کی قومی سطح پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے، ریاست نے 25 سال بعد ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اب ان کا بچنا مشکل ہے، کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ حالات بدلنے پر ریلیف ملے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت ملک ریاض کو عرب امارات سے واپس لائے گی، اس حوالے سے معاہدہ موجود ہے، القادر ٹرسٹ کو حسن نواز کے کیس سے جوڑا جا رہا ہے ، حسن نواز کی پراپرٹی کی بھی این سی اے نے تحقیقات کیں ، حسن نواز والے معاملے کی تحقیقات میں کچھ نہیں چھپایا گیا، کوئی یہ بتا دے کہ ریاست کا پیسہ ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں کیسے چلا گیا، القادر یونیورسٹی کو کالج کا درجہ دینا بھی کالج کی توہین ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ انہیں کسی قسم کا ریلیف ملے گا، ملک ریاض کو پاکستان لایا جائے گا اور ان پر تمام مقدمات چلائے جائیں گے۔
خواجہ آصف نے خبردار کرتے کہا کہ میڈیا جن کے احتساب کا نام لینے کی جرات نہیں کر سکتا ان کا احتساب ہو گا ، ریاست نے بالاخر تین دہائیوں کی چھوٹ کے بعد ان کے گریبان پر ہاتھ ڈال لیا ہے، اب سب کا احتساب ہو گا ، اگر یہ باہر کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ریاست لوگوں کو انتباہ کر سکتی ہے کہ انکے کاروبار میں پیسہ نہ لگائیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں دوغلا پن جاری رہے گا تو جمہوریت کا سلسلہ اصل روح کے مطابق نہیں آسکتا، صحافت، سیاست اور عدلیہ میں دوغلے پن کا خاتمہ ہونا چاہیے، آج کی پریس کانفرنس میں صحافی اور ان کے کیمرے بھی کم ہیں، معلوم نہیں میری بات سنائی بھی جائے گی، یا نہیں، میری بات چیت کہیں سیلف سینسر شپ کی نذر نہ ہوجائے۔
صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ اس معاملے پر بھی بحث ہونی چاہیے کہ 25 سال سے ایک شخص منظم انداز میں سر عام غیر قانونی سرگرمیاں جاری رکھے ہوا تھا، تو سب خاموش کیوں رہے ؟۔