عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کو 50سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ۔
نجی ٹی وی کے مطابق عالمی بینک کی جاری رپورٹ مطابق پاکستان میں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی 1974کے بعد سب سے زیادہ رہی ہے ۔ رپورٹ میں بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی وجہ قرار دیا گیا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی مہنگائی 50 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے، مالی سال کی پہلی ششماہی میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر50اعشاریہ 6 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں شہری علاقوں میں توانائی کی افراط زر 40اعشاریہ 6فیصد پر تھی ۔
عالمی بینک کی جاری رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششمائی میں اوسط مہنگائی 28اعشاریہ 8 فیصد رہی جو کہ گزشتہ سال اس عرصے کے میں25فیصد پر تھی ۔ قبل ازیں اپنی ایک رپورٹ میں عالمی بینک نے پاکستان کی اقتصادی نمو1.8 فیصد تک رہنے کی پیشنگوئی کرتے ہوئے کہاہے کہ ملک مضبوط اقتصادی بحالی اور غربت کے خاتمے کے حوالہ سے ملک معاشی اصلاحات کے پرجوش، قابل اعتماد اور واضح پروگرام پرعمل پیراہے،بہترزرعی پیداوار کی وجہ سے مالی سال2024 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری آئی ہے۔
یہ بات عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ نامی رپورٹ میں کہی گئی ۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق سخت زری ومالیاتی پالیسی، زرمبادلہ کے ذخائرکی کمیابی، درآمدات پرقابو پانے کے انتظامات کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں اوربحالی کا عمل سست روی سے بڑھ رہاہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کے مالی اخراجات، ان اداروں کی نجکاری اوراس ضمن میں کارکردگی اور گورننس کو بہتر بنانے کے لئے اہم وضروری اصلاحات کا احاطہ بھی کیاگیاہے ۔رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ مالی سال 2023 میں سکڑاؤ کے بعد مضبوط زرعی پیداوار کی وجہ سے مالی سال2024 کی پہلی ششماہی میں معاشی سرگرمیوں میں بہتری و استحکام آیا ہے۔
اعتماد میں بہتری کے ساتھ ساتھ بعض دیگر شعبوں میں بھی بحالی میں مدد ملی ہے تاہم نمو اوربہتری کی یہ شرح غربت کو کم کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قرضوں کے بوجھ اور زرمبادلہ کے محدود ذخائر کی وجہ سے کلی معیشت کیلئے خطرات زیادہ ہیں اوراسی تناظرمیں معاشی منظرنامہ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات ضروری ہے۔ پاکستان میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹرناجی بن حسائن نے رپورٹ میں بتایا کہ اعتماد کی بحالی کیلئے اصلاحات کا واضح اور عمل درآمد کا قابل عمل منصوبہ تیار کرنا ضروری ہے۔معاشی ترقی اورنمو کیلئے بہتر مالیاتی انتظام، افراط زر اورحسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے کو کم کرنا، مالیاتی شعبے کے استحکام کو بہتر بنانا اور نجی شعبے کو قرضوں کی فراہمی میں اضافہ ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پائیدار وسط مدتی بحالی کے لیے اخراجات کے معیار کو بہتر بنانے، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، نجی شعبے کی کارگردگی میں بہتری، ضابطہ جاتی رکاوٹوں کو دور کرنے، معیشت میں ریاستی موجودگی کم کرنے، نجکاری وتوانائی کے شعبے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور عوامی سطح پراعتماد میں اضافے کے لیے اصلاحات کے ساتھ ساتھ دانشمندانہ میکرو اکنامک پالیسی کی ضرورت ہوگی۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں دس شعبوں میں اہم اصلاحات کی ایک فہرست بھی شامل کی گئی ہے جن پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے سربراہ سید مرتضیٰ مظفری نے کہا کہ میکرو اکنامک منظرنامہ پاکستان کی صلاحیت سے کم شرح نمو کا عکاسی کررہاہے ۔
انہوں نے بتایا کہ پالیسی واصلاحات کے وعدوں پرعمل درآمدوعزم، مالیاتی شعبہ کودرپیش خطرات، عالمی سطح پرتوانائی اوراشیائے خوراک کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ، عالمی سطح پرسست رفتارنمو اوزیادہ مالیاتی شرائط کی وجہ سے پاکستان کے اقتصادی منظرنامہ کیلئے مشکلات موجودرہیں گی ۔ رپورٹ میں معیشت کے اہم شعبوں میں کام کرنے والے ایس او ایز کے ا مالی اخراجات کا احاطہ کیاگیاہے اوربتایاگیاہے کہ یہ ایس او ایز 2016 سے مسلسل خسارے میں ہیں، حکومت سبسڈیز، گرانٹس، قرضوں اور گارنٹیز کے ذریعے ان اداروں کو مالی مدد فراہم کر رہی ہے جس کی خسارے میں اضافہ ہورہاہے۔
رپورٹ کی شریک مصنف قرۃ العین ہادی نے بتایا کہ مالی سال 2022 میں سبسڈیز، قرضوں اور ایکویٹی سرمایہ کاری کی شکل میں ایس او ایز کو براہ راست حکومتی امداد وفاقی بجٹ خسارے کا 18 فیصد ہے اورمجموعی قومی پیداوارکا دوفیصدتھا۔ رپورٹ میں ان اداروں کے مالی خسارے کو روکنے کے لیے 2021 کے ٹرائیج پلان کے مطابق نجکاری و تنظیم نو پر تیزی سے پیش رفت کی سفارش کی گئی ہے۔