راولپنڈٰی: اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے انکشاف کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے جیل سے کسی شخصیت کو کوئی خط تحریر نہیں کیا۔
تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم نے خط کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان نے جیل سے نہ تو فوج کے سربراہ اور نہ ہی ملک کے چیف جسٹس کو کوئی خط بھیجا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جیل سے کسی بھی زیر حراست ملزم یا مجرم کو خط تحریر کرنے کی اجازت جیل انتظامیہ اور سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی قیدی خط لکھنا چاہتا ہے تو اسے جیل انتظامیہ سے کاغذ قلم حاصل کرنا ہوتا ہے، جس کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ اس خط کا جائزہ لیتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ خط میں کوئی ایسا پیغام نہ ہو جو انتشار، دہشت گردی یا امن عامہ کے لیے خطرہ ہو۔ اگر سب کچھ درست ہو تو خط کو مکتوب الیہ تک پہنچانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک سزا یافتہ قیدی کو ہفتے میں دو ملاقاتوں کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر کوئی قیدی ایک خط بھی لکھتا ہے تو اس کی ملاقاتوں میں سے ایک کمی کر دی جاتی ہے۔ عمران خان کو ہفتے میں تین ملاقاتوں کی اجازت دی جاتی ہے۔ سپرنٹنڈنٹ نے یہ بھی کہا کہ اگر جیل کے باہر سے کسی قیدی کے لیے خط آتا ہے تو اس کی جانچ پڑتال کرنا اور اس میں موجود پیغامات کو سنسر کرنا جیل سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری ہے۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے یہ دعویٰ، کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی قیدی کو قید تنہائی میں رکھنے کا حکم صرف مجاز عدالت دے سکتی ہے اور یہ حکم اس صورت میں دیا جاتا ہے جب ملزم کو دوسرے قیدیوں کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ بشریٰ بی بی کو وہ تمام سہولتیں دی جا رہی ہیں جو کسی بھی سزا یافتہ قیدی کو فراہم کی جاتی ہیں، بلکہ اس سے زائد سہولتیں بھی دی جا رہی ہیں۔ قید تنہائی کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔
عبدالغفور انجم نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی اکثر ہفتے میں تین مرتبہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں، جہاں ان کے ساتھ موجود 1103 افراد سے بات چیت ممکن ہوتی ہے، مگر یہ بات چیت خط کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔
سپرنٹنڈنٹ جیل نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ جیل میں عمران خان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جا رہا ہے اور اگرچہ انہوں نے کبھی کبھار تنہائی اور سہولتوں کے حوالے سے شکایات کیں، مگر جیل کے اندر جاکر فاضل جج نے ان کی تمام سہولتوں کا معائنہ کیا اور انہیں اطمینان بخش قرار دیا۔