مظفرآباد: مقبوضہ کشمیرکے ضلع راجوی میں پراسرار طور پر17 افراد کی اموت واقع ہوگئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ضلع راجوری کے گاؤں بدھل میں پراسرار طور پر 17 افراد کی موت واقع ہو گئی جس میں 13 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اموات 7 دسمبر 2024 سے 19 جنوری 2025 کے درمیان ہوئیں۔
ذرائع کے مطابق مرنے والے بچوں میں سے 6 بہن بھائی تھے جن کی عمریں سات سے پندرہ سال کے درمیان تھیں۔ متاثرین میں پہلے بخار اور کپکپی کی علامات ظاہر ہوئیں، پھر بے ہوشی کے بعد چند گھنٹوں میں موت واقع ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق پے در پے اموات کے بعد گاؤں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور مقامی لوگ اس پراسرار بیماری کو لے کر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اس دوران بدھل گاؤں کے قریب ایک کنویں کے پانی میں کیڑے مار دوائیوں کے نشانات ملے، جس کے بعد حکام نے کنویں کو سیل کر دیا۔ گاؤں کے رہائشی محمد اسلم نے اپنی بیوی اور چھ بچوں سمیت خاندان کے بیشتر افراد کو اس بیماری کے ہاتھوں کھو دیا۔
ایشیا پیسیفک کی رپورٹ کے مطابق طبی ماہرین نے وائرل یا بیکٹیریل انفیکشن کو مسترد کر دیا ہے، لیکن یہ اشارے ملے ہیں کہ مرنے والوں میں نیوروٹوکسنز موجود تھے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج راجوری کے پرنسپل ڈاکٹر امرجیت سنگھ بھاٹیہ نے انادولو نیوز کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹس سے یہ پتہ چلا کہ مرنے والوں میں کچھ نیوروٹوکسن پائے گئے ہیں، تاہم موت کی اصل وجہ کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔
مقامی لوگوں اور کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹوں کے مطابق متاثرہ آبادی نے پانی کے ذرائع پر شکوک کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ پانی زہر آلود ہو سکتا ہے۔ مقامی افراد نے بھارتی فوج کے قریبی کیمپ پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اس واقعے میں ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج ممکنہ طور پر حکمران بی جے پی اور آر ایس ایس اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر جان بوجھ کر پانی کی سپلائی کو آلودہ کر سکتی ہے تاکہ علاقے میں فوجی کارروائیوں کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔
مقامی لوگوں نے اس واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان اموات کے پیچھے کیا حقیقت ہے اور کیا اس میں بھارتی فوج یا کوئی اور طاقت ملوث ہے۔
یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے سلسلے میں ایک اور سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے، اور عالمی سطح پر اس کی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔