صحافی زاہد گشکوری نے عمران خان کو جیل میں رکھنے پر آئے اخراجات کی تفصیلات بتا دیں۔
زاہد گشکوری نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ عمران خان لگ بھگ 520 دنوں سے جیل میں ہیں۔ ان کیخلاف 188کیسز فائل کیے گئے ہیں۔ جن میں 4انویسٹی گیشنزاور انکوائریزنیب میں ہیں، 12انویسٹی گیشنز ایف آئی اے میں ہیں۔ جبکہ ملک بھر کے 70پولیس اسٹیشنز میں 172کریمینل کیسز ہیں۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو حکومت سے پوچھے بغیر 3سال کیلئے ملک سے باہر جانے کی پیشکش کی گئی تھی، صاحبزادہ حامد رضا
صحافی نے کہا کہ حکومت نےجیل میں عمران خان پر 55کروڑ روپے خرچ کر ڈالے ہیں۔عمران خان کے سیل کے ارد گرد 26سیکیورٹی گارڈز تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ 5ایجنسی کے آپریٹرزجیل کے باہر تعینات ہیں جو سیکیورٹی معاملات دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا عمران خان کے سیکیورٹی اہلکاروں کو تنخواہوں کی مد میں 5کروڑ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ عمران خان کے سیل کے ارد گرد بہتر بنانے کیلئے 2کروڑ روپے کا خرچ آیا۔
زاہد گشکوری کے مطابق عمران خان کے لوازمات اور کھانے پینے پر پانچ لاکھ روپے ماہانہ جبکہ سیکیورٹی پر 12لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا ہے۔ عمران خان کے کھانے پینے کا روزانہ کی بنیاد پر خرچہ 32ہزار روپے ہے۔ جو کہ حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ عمران خان کے اڈیالہ جیل میں قائم بینک میں بھی 2 کروڑ روپے سے زائد رقم موجود ہے۔ جتنے اخراجات کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کیخلاف نیب کی ٹیم اور پراسیکیوٹرز پر اب تک 30کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جو ہائی پروفائل کیسز ہیں۔ ایف آئی اے کے 16ایویسٹی گیٹرز ان کیخلاف12 کیسز دیکھ رہے ہیں جن پر 5کروڑ روپے خرچ آیا ہے جبکہ ملک بھر کے تھانوں میں 172کیسز میں عمران خان پر مقدمات میں سیکیورٹی آفیشلز کی جانب سے 10کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔
سعودی عرب کا عمران خان کی رہائی میں کوئی کردار ادا نہ کرنے کا عندیہ، زاہد گشکوری
اس کے علاوہ زاہد گشکوری نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے کہ اگر امریکا سعودی عرب کے توسط سے پاکستان پر عمران خان کی رہائی کیلئے دبائو ڈالے تو سعودی عرب کا کیا کردار ہوگا۔
سعودی مجلس شوریٰ کے چئیرمین ڈاکٹر عبداللہ محمد ابراہیم الشیخ پاکستان کے دورے پر آئے، اس دورے میں کئی موضوعات پر بات ہوئی کہ اسرائیل کیساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کیسے ہونے چاہئے یا نہیں ہونے چاہئے۔ سعودی عرب اسرائیل کیساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان اس کا ساتھ دے۔ پاک بھارت تعلقات پر بھی گفتگو ہوئی اور اس موضوع پر بھی بات ہوئی کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کی رہائی کیلئے سعودی عرب کا کردار چاہتی ہے تو سعودی عرب کیا کرے۔
سعودی حکام کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ شاید سعودی عرب اس معاملے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر محمد بن سلمان سے کوئی درخواست کی جائے تو وہ اس معاملے پر امریکا سے معذرت کر لیں۔