پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے پنجاب زرعی انکم ٹیکس ترمیمی بل 2024 کے مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں۔
ائی ایم ایف کی شرائط کے تحت پنجاب میں کارپوریٹ زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبوں پر انکم ٹیکس متعارف کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایوان میں پیش کئے جانے کے بعد سپیکر ملک احمد خان نے بل کے مسودے کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے دوماہ میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سپیکر نے کہا کہ پنجاب میں زراعت پر سپر ٹیکس لگانے پر ارکان اسمبلی کو اپنی رائے ضرور دینی چاہیئے، اْن کا کہنا تھا کہ ستر فیصد چھوٹے کسان ٹیکس کی زد میں میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے کسانوں کی اگر سرکاری آمدن میں حصہ تین ارب روپے کے قریب ہے،تو یہ کسانوں کو ملنے والی حکومتی سبسڈی آمدن کی نسبت تین سو گنا زائد ہے۔
سپیکر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کسان ٹیکس بل پر اسمبلی ارکان باقاعدہ طورپر گفتگو کریں۔ پنجاب کی زراعت کے ساتھ 50 فیصد سے زیادہ لوگ منسلک ہیں اور یہ صرف تین ارب جی ڈی پی میں حصہ ڈال رہے ہیں جبکہ تین سو گنا زیادہ سبسڈی لے رہے ہیں جب ٹیکس لگ جائے تو ٹیکس اور سبسڈی کا تناسب کیا ہوگا۔ زراعت پر سبسڈی کسی کا احسان نہیں بلکہ اس کا پورا نظام ہونا چاہیے، اگر کسان ٹیکس دیتا ہے تو کیا اسے دیگر ٹیکس دینے والوں کی طرح حقوق حاصل ہونگے، کھاد پانی اور زرعی ادویات پرچھوٹا کسان اس لوپ میں نہیں ہے بڑا کسان ہے۔ کسان اپنے ریٹرنز میں یہ سارے ٹیکس شامل کرتا ہے۔
ملک محمد احمد خان نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے علاؤہ ٹھیکے پر زمین دینے والا کسان کیا اس آمدن کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کما رہا ہے تو کیا اسے ٹیکس دینا چاہیے یا نہیں، اسی طرح جو خاتون کھیت میں کام کر رہی ہے اسے کیا سہولیات ہیں اس کا ورکنگ اوورز کیا ہونگے۔ اس پر بات کرنی چاہیے کہ یہ ٹیکس لگنا چاہئے یا نہیں۔ ملک محمد احمد خان نے کہا کہ جب کسان کی فصل تباہ ہو جاتی ہے تب کیا ہو گا کیا وہ ایسی صورت میں بھیک مانگے گا، ٹیکس پر بات کریں دلیل دیں قائل کریں۔ ا
نہوں نے کہا کہ ابھی بل کو دیکھا جائے گا کہ اس ایسی کیا چیز ہے جسے سپر ٹیکس کہا جا رہا ہے۔ ستر فیصد زراعت تو چھوٹا کسان کر رہا ہے تیس فیصد بڑا کسان کتنا ٹیکس دے سکتا ہے یہ بھی تو دیکھنا ہے۔