تحریر: فیاض الحسن چوہان
تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیسا رویہ اور سلوک اختیار کروں گا، یہ و ہ تاریخی سوال تھا جو سکندر اعظم نے 326قبل مسیح میں دریائے ہیڈ سپیس (دریائے جہلم) کے کنارے راجہ پورس کے لشکر سے برپا ہونے والی تاریخی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعداپنے سامنے زنجیروں میں جکڑے راجہ پورس سے کیا۔۔۔۔!!!
راجہ پورس نے بھی اس موقع پر جو جواب دیا وہ تا قیامت ایک ڈائیلاگ ، کہاوت اور سنہری الفاظ کی صورت میں امر اور رقم ہوگیا۔۔۔:’’مجھے امید ہے کہ آپ میرے ساتھ وہی سلوک اور رویہ اختیار کرو گے جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کیساتھ اختیار کرتا ہو‘‘۔۔۔!!!!
سکندر ِ اعظم راجہ پورس کے اس جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے راجہ پورس کی راجدھانی اور علاوہ دوبارہ اس کے حوالے کر دیا۔
یہ سارا مکالمہ اور منظر نامہ اس تاریخی جنگ کے اختتام کا ہے جو 326قبل مسیح میں دریائے جہلم کے کنارے پر راجہ پورس اور سکندر اعظم کے درمیان لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں راجہ پورس کو شکست ہوئی اور اس کی شکست کی بنیادی وجہ اس کے وہ ہیبت ناک ہاتھی تھے جنہیں وہ میدان جنگ میں سکندر اعظم کو شکست کیلئے لایا تھا ۔۔ لیکن ۔۔ بدقسمتی سے وہی ہاتھی اس کی اپنی ذلت ورسوائی اور شکست و پسپائی کا باعث بن گئے ۔ سکندر اعظم نے راجہ پورس کے ہاتھیوں کی طاقت کو زائل کرنے اور ان کو راجہ پورس کے ہی لشکر کیلئے باعث عذاب بنانے کیلئے ایک زبردست اور حیران کن ٹیکنیک استعمال کی ۔ اس نے اپنی فوج میں ایک خصوصی دستہ ترتیب دیا جن کے ذمے یہ کام تھا کہ انہوں نے ہاتھیوں کے کانوں کے قریب انتہائی اونچی آواز میں ڈھول بجانا اور آواز نکالنے والے مختلف قسم کے اوزاروں اور آلات سے شدید اونچی آواز میں شور مچانا تھا!!!!
سکندر اعظم کی اس عجیب و غریب اور مافوق الفطرت جنگی حکمت عملی نے ایسا حیران کن رزلٹ دیا کہ جو قیامت تک تاریخ کی کتابوں میں مثال اور کہاوت کی صورت میں عبارت اور امر ہوگیا!!! سکندر اعظم کے ترتیب دیے ہوئے دستے نے جب راجہ پورس کے ہاتھیوں کے کانوں کے قریب انتہائی اونچی آواز میں ڈھول پیٹنا اور مختلف آلات واوزار کے ساتھ بے ہنگم شور مچانا شروع کیا۔۔ تو ۔۔ پورس کے ہاتھی بُری طرح بدک گئے اور انہوں نے سامنے سکندراعظم کے لشکر پر حملہ کرنے کے بجائے جھجلاہٹ اور اکتاہٹ کے عالم میں ایک سواسی ڈگری کا یوٹرن لے کر واپس اپنے ہی لشکر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا اور اس بھگدڑ میںراجہ پورس کے لشکر کے جنگی آلات و اوزار اور سپاہی ان ہاتھیوں کے پائوں تلے بُری طرح روندے گئے اور اس طرح جو راجہ پورس ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا ۔۔ اسے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑگیا۔۔۔!!!!
8ستمبر کا جلسہ اور جلسے میں کے پی کے کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ، گلگت بلتستان کے سابق وزیراعلیٰ خالد خورشید اور مراد سعید کی تقریریں بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کیلئے ’’پورس کے ہاتھی ‘‘ثابت ہوئی ہیں۔ جیسے راجہ پورس کے ہاتھیوں نے سکندراعظم کیساتھ مشہور زمانہ جنگ میں اپنی ہی فوج پر چڑھائی کرکے راجہ پورس کے سر پر ناکامی کا تاج سجوادیا تھا اور اسے زنجیروں میں جکڑے سکندراعظم کے سامنے بے بس ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔۔ بالکل ویسے ہی ۔۔۔ آٹھ ستمبر کا جلسہ اور پی ٹی آئی کے ان قائدین نے بانی تحریک انصاف کے پلے کچھ نہیں چھوڑا !!!!!
تحریک انصاف کے ان ہاتھیوں نے بانی تحریک انصاف کی سیاسی اور ذاتی امیدوں اور ضرورتوں کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے!!!!!
آئین، ریاست، ریاستی اداروں اور معاشرے کی اجتماعی اقداروں کو اس جلسے میں جس طرح تہہ تیغ کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔شنید تھی کہ شاید تیرہ مہینوں سے قید بانی تحریک انصاف کو اپنے رویے اور پالیسیوں پر ندامت کا اظہار کرکے شاید کوئی آبرومندانہ راستہ مل جائیگا ۔۔ لیکن۔۔ تحریک انصاف کے ہاتھیوں نے بانی تحریک انصاف کی ذاتی مشکلات، مسائل اور تکالیف میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ جس کا ازالہ ناممکن ہے۔ بانی تحریک انصاف نے بظاہر تحریک انصاف کے ہاتھیوں کے 8ستمبر کے غیر قانونی ، غیر آئینی ، غیر شرعی ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی اعمال ، اقدامات اور الفاظ کو عین قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کا ڈائیلاگ نہیں ہوگا۔۔ لیکن۔۔ حقیقت یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف کے لیے صورتحال ’’اگو چک تے پچھو لت ‘‘اور’’آگے کھڈا پیچھے کھائی‘‘والی بن چکی ہے۔۔!!!
326قبل مسیح کو دریائےجہلم کے کنارے اپنے ہی ہاتھیوں کی خرمستی اور بدمستی کے سرصدقے شکست و نامرادی کا شکار ہونیوالا راجہ پورس تو اپنی کمال ڈپلومیسی اور خوبصورت الفاظ و اعمال کے چنائو کی وجہ سے سکندراعظم سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔ لیکن ۔۔2024کا پاکستانی راجہ پورس جی ٹی روڈ کے کنارے سنگ جانی میں اپنے ہاتھیوں کی شرمسی اور بدمستی کے صلے میں ناکام و نامراد ہوکر کسی قابل نہیں رہے گا۔ کیونکہ وہ راجہ پورس کی طرح کی شائستہ زبان اور ڈپلومیسی اور وقت اور ماحول کے مطابق باوقار رویہ اختیار کرنے سے بالکل عاری اور بابلد ہے۔۔۔!!!!!