سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل دیا

سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں  دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل  دیا

حکومت کو بڑا دھچکا، دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ، سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کونسل کو مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کردیا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کی گئی ۔ وفاقی حکومت اور خواتین ارکان اسمبلی نے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی ۔حکومت نے بھی تین رکنی بنچ پر اعتراض کیا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے استدعا کی کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔جس پر جسٹس منصور علی شاہ کہا کہ ابھی تو اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ ہونا ہے، قابل سماعت ہونا طے پا جائے پھر لارجر بینچ کا معاملہ بھی دیکھ لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کی بےساکھی والی حکومت کہتی ہے گندم سکینڈل میں نگراں حکومت ملوث ہے، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب

خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے وکیل نے دلائل دیے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس پانچ رکنی بنچ سن سکتا ہے۔عدالت نے بنچ پر اعتراض کو مسترد کر دیا۔ وکیل سنی اتحاد کونسل عدالت کو بتایا کہ خیبرپختونخواہ میں جے یو آئی کو 7 نشستوں پر دس مخصوص نشستیں دی گئیں، پیپلز پارٹی کو چار نشستوں پر 6 اور ن لیگ کو پانچ نشستوں پر 8 نشستیں الاٹ کی گئی ہیں۔ مخصوص نشستوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشستیں دوبارہ انہیں سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی جائیں ۔ ہمیں عوام کے مینڈیٹ کی حفاظ کرنی ہے اور یہ مسئلہ ہی عوام کے مینڈیٹ کا ہے ۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا آئینی اصول کیا ایک تکنیکی اصول سے ختم ہوسکتا ہے، اگر ایک سیاسی جماعت نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی تو آئین نظر انداز ہو سکتا ہے؟

جسٹس منصور نے کہا کہ ہمارے لئے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں ، اہم بات سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے یا نہیں، 82 نشستوں پر آپ کے مطابق 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ بانٹی گئی مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں، کیا یہ 23 مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جاسکتی ہیں، ایسا آئین اور قانون میں ہے؟ اگر بانٹی گئی نشستیں دوبارہ نہیں بانٹی جا سکتی تو کیا وہ خالی رہیں گی ۔ جسٹس اطہر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں، ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت تو ہے۔جس پر تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ میں یہی سوال الیکشن سے پہلے عدالت لے کر گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ متوقع

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا کا مینڈیٹ نظر انداز کر کے کیسے کسی اور کو دیا جا سکتا ہے، بغیر معقول وجہ بتائے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن حکام سے پوچھا کہ کیا آزاد امیدواروں کی نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹی جاسکتی ہیں؟ 200آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں کیا 6امیدواروں والی سیاسی جماعت کو مل جائیں گی۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اگر آزاد کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تو مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے علاوہ دوسروں کو دینے کے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کردیا۔ عدالت نے وضاحت کی کہ فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینے کی حد تک ہوگی۔ عدالت نے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے کیس پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھی بھجوا دیا۔خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں الاٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے بحال رکھاگیا تھا ۔ سنی اتحاد کونسل کونسل کی جانب سے دوسری پارٹیوں میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کیخلاف عدالت میں اپیلیں دائر کررکھی تھیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *