خیبرپختونخوا میں سیاسی مداخلت برقرار رکھنے کیلئے پولیس افسران کے تبادلے ارکان اسمبلی کی منظوری سے مشروط کرنے کا فیصلہ
خیبر پختونخوا حکومت نے 2 ماہ کے دوران 1200 سے زائد پولیس افسران اور اہلکاروں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے تبادلے کرا دئیے ہیں۔ حکومت نے پولیس میں سیاسی مداخلت برقرار رکھنے کیلئے ارکان اسمبلی کی منظوری سے پولیس افسران اور اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے۔بیوروکریٹس سمیت دیگر محکموں کی سربراہی کے اختیارات بھی ان ارکان اسمبلی کے پاس ہونگے جن کا ہر ماہ اجلاس منعقد ہوگا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما کمال سلیم سواتی کی محکمہ تعلیم کی خاتون افسر کو دھمکیاں دینے کی مبینہ آڈیو لیک
ذرائع کے مطابق چند روز قبل پشاور سے تحریک انصاف کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے سی سی پی سید اشفاق انور اور دیگر پی ایس پی پولیس افسران کیساتھ میٹنگ کی جس میں انہیں دھکمی دی گئی کہ آئندہ وہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے احکامات کی روشنی میں اپنے فرائض سر انجام دینگے۔سی سی پی او کیساتھ اجلاس میں ایم این اے ارباب شیر علی، ایم این اے آصف خان اور صوبائی وزیربرائے اعلی تعلیم مینا خان اور دیگر شریک تھے۔ اسی طرح ضلع خیبر اور مردان میں بھی پولیس افسران کیساتھ میٹنگ کرکے انہیں ارکان اسمبلی کی تابعداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس کو تحریک انصاف کے منتخب سیاسی نمائندوں کے ماتحت بنانے کا سارا عمل وزیراعلی امین گنڈا پور کے احکامات کی روشنی میں ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ کا علی امین گنڈاپور کو کسی بھی درج مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم
بیوروکریٹس سمیت دیگر محکموں کی سربراہی کے اختیارات بھی ان ارکان اسمبلی کے پاس ہونگے جبکہ صوبے کے تمام اضلاع میں پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اسمبلی تمام محکموں کے افسران کیساتھ ہر ماہ اجلاس کا انعقاد کرینگے ۔جس کی سربراہی متعلقہ اضلاع کے ارکان اسمبلی کرینگے۔ 2 ماہ کے دوران صوبہ بھر میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے کہنے پر اب تک 1249 پولیس افسران اور اہلکاروں کے تبادلے کرائے جا چکے ہیں۔تبدیل اور ضلع بدر ہونے والوں میں وہ پولیس افسران اور اہلکارشامل ہیں جنہوں نے 9 مئی واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو یا تو گرفتار کیاتھا یا ان کے گھروں پر چھاپے مارے تھے۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختو نخوا میں دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشنز کی نگرانی بھی ارکان اسمبلی کے ذریعے کرانے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔