خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے 10 سالہ دور اقتدار میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم زبوں حالی کا شکار رہی۔ صوبے کی 29 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلر سے محروم ہیں۔ ان میں سے 10 یونیورسٹیز بغیر وائس چانسلر کے امور چلا رہی ہیں۔
ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے وائس چانسلر کی آسامیوں پر پروفیسر کی بجائے بیوروکریٹ کو تعینات کرنے کی تجویز پر غور شروع کر دیا ہے۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر کیلئے پروفیسر اور پی ایچ ڈی کی شرط کو بھی ختم کیا جارہا ہے تاکہ بیوروکریٹ کو وائس چانسلر تعینات کرنے کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے جو طریقہ وضع کیا گیا ہے اس کےمطابق وائس چانسلرکی مدت ملازمت پوری ہونے سے 6 ماہ قبل نئے وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے آسامی کو مشتہر کیا جاتا ہے اوراہلیت رکھنے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرکے 6 ماہ سے ایک سال کے دوران وائس چانسلر کو تعینات کرنے کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کی 29 یونیورسٹیوں میں سے فاٹا یونیورسٹی، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، یونیورسٹی آف بونیر، وومن یونیورسٹی مردان، ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی، گومل یونیورسٹی، خو شحال خان خٹک یونیورسٹی کرک، یونیورسٹی آف ایگریکلچر ڈی آئی خان، یونیورسٹی آف لکی مروت، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی مردان، وومن یونیورسٹی صوابی اور یونیورسٹی آف چترال میں ایک سال سے زائد عرصہ میں کوئی مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں ہوئے ہیں۔عبدالولی خان یونیورسٹی، باچا خان یونیورسٹی، شہدا اے پی ایس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نوشہرہ، کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف پشاور، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں گزشتہ کئی ماہ سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہیں ۔ذرائع کے مطابق صوبے کی 10 یونیورسٹیوں میں قائم مقام / مستقل وائس چا نسلز نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کو روزانہ کی بنیا د پر ڈگریوں کی اجرا اور تصدیق کی مد میں لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق وائس چانسلرز نہ ہونے کی وجہ سے مختلف اداروں کیساتھ ایم او یوز تا خیر کا شکار ہیں جبکہ بیشتر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مالی امداد دینے میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔اس کے علاوہ ڈگریوں پر جب تک وائس چانسلر / قائم مقام وائس چانسلر کے دستخط نہیں ہو تے تب تک ڈگریوں کا اجرا نامکمن ہے۔ جس سے فارغ التحصیل طلبہ کو بھی شدید دشواریاں سامنے آتی ہیں۔ذرائع کے مطا بق یونیورسٹیوں میں مالی اور انتظامی پالیسی کا اختیار صرف وائس چانسلر کے پاس ہوتا ہے لیکن صوبے کی دس یونیورسٹیوں میں وی سی کی عدم موجودگی کی بنا پر یونیورسٹیاں مالی اور انتظامی بحران کا شکار ہے جبکہ نگران حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرکی تعینا تی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا جس کو موجودہ حکومت نے اپنی انا کی نذر کر کے ملتوی کرکے دوبا رہ سے وائس چانسلروں کی تعینا تی کےلئے آسامیوں کو مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نگران حکومت میں وائس چانسلر کی تعیناتی پر سال سے زائد کا عرصہ لگا ہے جبکہ اب نئی حکومت یونیورسٹی ماڈل ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتی ہےاور ایکٹ میں ترمیم کے بغیرصوبا ئی حکومت وائس چانسلروں کی تعینا تی نہیں کر نا چا ہتی ۔ذرائع کے مطابق یونیورسٹی ما ڈل ایکٹ میں ترمیم کےلئے جس کے لئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائیگا اور اس میں منظوری کے بعد وائس چانسلرز کی تعیناتی کا عمل شروع ہو گا جس پر ایک سال کا عرصہ لگے گا جس سے یونیورسٹیاں مزید تعلیمی ،مالی اور انتظامی بحران سے گزریں گی۔