اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا ہے، مرکزی بینک کے بیان کے مطابق شرح سود بائیس فیصد کی سطح پربرقرار ہے۔
گورنر مرکزی بینک جمیل احمد کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا ا جس میں معاشی اشاریوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔ بزنس ریکارڈر کے مطابق مارکیٹ ماہرین کا خیال تھا کہ مرکزی بینک مانیٹری پالیسی میں کسی بھی نرمی کے اطلاق میں تاخیر کا انتخاب کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی نظر بڑھتی ہوئی ترقی اور افراط زر کے دباؤ کو کنٹرول میں رکھنے کے درمیان توازن قائم کرنے پر ہے۔اسٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2024 میں ملک میں ماہانہ مہنگائی کی شرح 20.7 فیصد رہی اور پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ 60 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے سرپلس رہا، جب کہ جولائی تا مارچ ترسیلات زر 9.3 فیصد سے بڑھ کر 21 ارب ڈالر پر پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا ہے کہ معاشی استحکام کے اقدامات مہنگائی اور بیرونی پوزیشن دونوں میں خاطر خواہ بہتری لانے میں کردار ادا کررہے ہیں اور معتدل معاشی بحالی آرہی ہے تاہم ملک میں مہنگائی کی سطح اب بھی بلند ہے۔
پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، توانائی کے گردشی قرضے اور آئندہ بجٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات مہنگائی کے منظرنامہ کے لیے خطرہ ہیں، اجناس کی عالمی قیمتیں لچکدار عالمی نمو کے ساتھ اپنی پست ترین سطح تک پہنچ چکی ہیں۔ حالیہ بین الاقوامی واقعات نے بھی ان کے منظرنامے کے بارے میں غیریقینی کیفیت میں اضافہ کیا ہے، مزید برآں مہنگائی کے قریب مدتی منظرنامے کے حوالے سے آئندہ بجٹ اقدامات کے مضمرات ہوسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر کمیٹی نے ستمبر 2025ء تک مہنگائی کو کم کرکے 5-7 فیصد ہدف کی حدود میں لانے کے لیے موجودہ زری پالیسی موقف کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے ۔ زری پالیسی کمیٹی کی توقعات کے مطابق مالی سال 2024 کی دوسری ششماہی کے دوران مہنگائی نمایاں طور پر معتدل رہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مارچ میں عمومی مہنگائی کم ہوکر سال بہ سال 20.7 فیصد رہ گئی جو فروری میں 23.1 فیصد تھی۔ اسی عرصے میں مہنگائی فروری کی 18.1 فیصد شرح سے خاصی کم ہوکر 15.7 فیصد رہ گئی ۔