تحریک انصاف کے جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی

تحریک انصاف کے جلد فوج سے  مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی

تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلد ہی فوج سے مذاکرات ہونگے

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام پاکستان مسلم لیگ ن کو مسترد کر دیا ہے، یہ لوگ فارم 47کے تحت قومی اسمبلی میں ہیں ،جو خود محتاج ہیں اور ریموٹ کنٹرول پر چل رہے ہیں ان کیساتھ ہم مذاکرت کیا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ فوج سے جلد مذاکرات کریں گےاور آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے بات ہوگی۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ بانی تحریک انصاف اپنے لیے کسی قسم کی ڈیل یا آفر کو مسترد کر چکے ہیں ، بلکہ پاکستان اور عوام کی بہتری کیلئے مذاکرت ہونگے ،اس حوالے سے خان صاحب پہلے دن سے ہی کہہ دیا تھا لیکن اب تک کسی قسم کا کوئی جواب نہیں آیا ہے ۔

حکومت عمران خان سے ہاتھ ملانے کو تیار، جیل سے بانی پی ٹی آئی کا جواب آگیا

انکا کہنا تھا کہ یہ ملک، فوج اور تمام ادارے ہمارے ہیں ،سب دیکھیں گے کہ فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے۔ شہر یار آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت چھوڑیں پھر تحریک انصاف فیصلہ کرے گی کہ کسے کس طرح لے کر چلنا ہے۔

طلال چودھری کی تنقید:

دوسری جانب گزشتہ روز سینیٹر طلال چوہدری نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے این آر او کانام مذاکرات رکھا ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چوہدری نےکہا کہ پی ٹی آئی نے این آر او کا نام مذاکرات رکھا ہوا ہے۔تحریک انصاف بات چیت بھی کر رہی ہے اور پھر مُکر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر انہیں این آر او دیدیا جائے تو اسی قیادت کے قصیدے پڑھنے لگ جائیں گے۔ ملکی اور قومی مفادات کے معاملے پر ہم نے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔

طلال چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کو این آر او مل جائے تو یہ اسی قیادت کے قصیدے پڑھنا شروع ہوجائیں گے ۔یہ بات چیت کر بھی رہے ہیں اور مُکر بھی رہے ہیں، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ 190 ملین دے دیں، فوراً معافی ہوجائے گی۔ جب بھی ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو یہ فوراً این آر او کی بات شروع کردیتے ہیں،حکومت فیصلہ کرے گی تو کوئی بھی بندا یا ادارہ بات کرے گا، یہ چاہ رہے ہیں 190ملین ہم کھا چکے، توشہ خانہ ہوگیا، 9 مئی ہوگیا اب معاف کریں۔ اگر ان کو این آر او دے دیا جائے تویہ اسی قیادت کے قصیدے پڑھیں گے، ہم جو کہتے تھے ہم اس پر کھڑے رہے ہیں۔ اسمبلی کے بزنس چلانے سے لے کر یہاں بہت سے مسائل ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *