سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں جبکہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی بات چیت ہونی چاہیے، رانا ثنا اللہ۔
سابق وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کا کہناہے کہ اصل لڑائی ہی تب شروع ہوئی جب اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور اپنے موقف کو غیر جانبدار رکھیں گے۔بعد ازاں انہوں نے یہ ثابت بھی کیا کہ وہ غیر جانبدار ہیں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میںبھی یہی بات کی تھی اور تسلیم کیا کہ ان سے بعض چیزیں ہوتی رہی ہیں الیکن وہ حالات کا جبر تھا کہ ان کے الفاظ تھے کہ ’ادارے نے اب غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے‘لیکن اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کہنا شروع کر دیا کہ ’غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے‘۔
مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی، اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر ہمیں ختم کرنے پر تل گئے تھے، رانا ثنا اللہ
انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جو بعد میں 26 نومبر تک آگئی اور اس دن عمران خان نے جو کرنے کی کوشش کی وہ بھی آپکے سامنے ہے، 26 نومبر کے بعد 9 مئی آگیا۔انہوں نے کہا کہ جو عمل بانی پی ٹی آئی کی طرف سے شروع ہوا ، جو حالات ہیں اور جو سیاسی عدم استحکام ہے اس میں اس چیز کا بھی ایک بنیادی کردار ہے، بطور سیاسی ورکر میں ڈائیلاگ کے خلاف ہمیشہ سے نہیں ہوں، میں تو یہ کہتا ہوں کہ مابین فریقین، مابین پولیٹیکل پارٹیز اور مابین پولیٹیکل لیڈرشپ ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان براہ راست رابطے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جب ڈائیلاگ ہوگا تو کرنے والے طے کریں گے کہ بلاواسطہ ہوگا یا براہ راست ہوگا۔
مزید پڑھیں: محسن نقوی، فیصل واوڈا اور انوارالحق کاکڑ ایک ہی خاندان سے ہیں، رانا ثنا اللہ
ان کا کہنا تھا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آئی اس وقت آپس میں سیاسی جماعتوں کا اتنا عدم رابطہ تھا کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو وزیر اعظم آفس بلایا اور ان سے کہا کہ آپ اپوزیشن والوں سے بات کریں کہ میں اسمبلیاں تحلیل کر کے الیکشن کروانے کو تیار ہوں وہ تحریک واپس لے لیں جس کے بعد سابق آرمی چیف نے پی ڈی ایم کے تمام قائدین کو بلایا اور ان سے کہا کہ آپ عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیں تو حکومت الیکشن کی طرف چلی جاتی ہے لیکن اس بات پی ڈی ایم قائدین میں اتفاق نہیں ہوسکا۔انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام ( جے یو آئی ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ہم اب تحریک واپس نہیں لیں گے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کو آپس میں بات کرنی چاہیے تھی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کی گئی اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ متعلقہ فریقین کے درمیان اگر آپس میں بات ہوتی ہے تو کوئی حرج ہوگا۔