18سال سے کم عمر کی شادی کرانے پرسزا کا بل تیار

18سال سے کم عمر کی شادی  کرانے پرسزا کا بل تیار

پنجاب حکومت نے 18سال سے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لئے Punjab Child Marriage Restraint Act 2024کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔

والدین ، ہمسایے،نکاح خواں ، رجسٹرار سمیت جو بھی اس عمل میں شامل ہوگا،گرفتاری ہو جائیگی۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 18سال سے کم عمر لڑکی یا لڑکے کی شادی کرنے یا اس کے ساتھ شادی کروانے والے شخص کو کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید سخت کی سزا جبکہ کم از کم ایک لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔

کم عمر بچوں کی شادی رجسٹر کرنے والے کو بھی کم از کم دو سال اور زیادہ سے زایادہ تین سال تک قید سخت کی سزا جبکہ کم از کم ایک لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔ ایسے ماں باپ یا گارڈین جوکم عمر بچوں کی شادی کرانے کے عمل کو فراغ دیں، اسکی حمایت کریں یا اجازت دیں کو بھی کم از کم دو سال اور زیادہ سے زایادہ تین سال تک قید سخت کی سزا جبکہ کم از کم ایک لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔

ڈرافٹ کے مطابق کم عمری کی شادی کے شکایت کنندہ ان بچوں کے ماں باپ یا گارڈین، ہمسائے، کمیونٹی ممبرز، اساتذہ، لوکل باڈیز کے ممبر، سوشل ورکر، دوست، امام مسجد، نکاح خواں اور نکاح رجسٹرار کے علاوہ دیگر افراد ہو سکتے ہیں۔ کم عمر بچوں سے شادیاں کرنے کا مرتکب قرار پانے والے افراد کا ٹرائل فیملی کورٹ ایکٹ 1964 سیکشن 3کے تحت بنائی جانے والی عدالتیں سیکشن 20 کے تحت حاصل اختیارات کے تحت کریں گی۔

مذکورہ ایکٹ کے تحت شادی کی رجسٹریشن کے وقت نکاح خواں، سیکرٹری یونین کونسل اورنکاح رجسٹرار لڑکی یا لڑکے کاکمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پاسپورٹ، تعلیمی اسناد یا دیگر ایسے دستاویزات چیک کریں گے جن سے ثابت ہوکہ دونوں کی عمریں 18سال ہیں۔ نکاح نامے کے ساتھکمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ پاسپورٹ، تعلیمی اسناد اور عمر کے حوالے سے دیگر ثبوتوں کی دستاویزات کی مصدقہ نقول لگانا لازم ہوگا۔ اس قانون کی خلاف ورزی یا کوتاہی جرم ہوگا اور اس کی صورت میں Punjab Child Marriage Restraint Act 2024کے سیکشن 6کے تحت نکاح خواں، نکاح رجسٹرار اور سیکرٹری یونین کونسل کو سزا ہوگی۔

شادی کرنے والے کسی بھی فریق کی عمرکے تعین پر کسی تنازعہ کی صورت میںعدالت کیس کی سماعت سے پیدائشی سرٹیفکیٹ، تعلیمی اسناد یا دیگر ضروری دستاویزات کی بناء پر عمر کا تعین کرے گی۔ مذکورہ دستاویزات نہ ہونے پر دونوں فریقوں کی عمر کا تعین میڈیکل ایگزامینیشن رپورٹ کے ذریعے کیا جائے گا۔اس ایکٹ کے تحت کم عمری کی شادی کے جرم کا معاملہ رپورٹ ہوتے ہی پولیس اور عدالتیں اس کا فوری نوٹس لیں گی اور شادی ہونے یااسکے ہونے سے قبل بھی عدالت کیس کا ٹرائل کرسکتی ہے۔

فیملی کورٹ کوکوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898کے تحت جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات ہونگے۔Punjab Child Marriage Restraint Act 2024کی خلاف ورزی قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل راضی نامہ ہوگی۔ اس ایکٹ کی خلاف ورزی پر جرم کا ارتکاب کرکے فیملی کورٹس سے سزا پانے والے سیشن کورٹس میں اپیل کر سکیں گے۔ پنجاب حکومت نے اس ایکٹ میں اپنی Statement of Object and Reasonsمیں کہا ہے کہ کم عمری کی شادی آج پاکستان میں ترقی کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔

ملک میں تقریباً 30 فیصد لڑکیوں کی شادیاں بچپن میں کر دی جاتی ہیں۔ یونیسیف کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی لڑکیاں سب سے زیادہ کم عمری کی شادی کا شکار ہوتی ہیں۔شہری علاقوں کی لڑکیوں کے لیے 21 فیصد کے مقابلے میں پھیلاؤ کی شرح 37 فیصد ہے۔ بچپن کی شادی غربت کے ایک چکر کو برقرار رکھتا ہے اور نوجوان ماؤں اور شیر خوار بچوں کی صحت پر شدید اثرات مرتب کرتا ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *