کراچی میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 3.2 ریکارڈ کی گئی، مرکز کراچی کا علاقہ ملیر تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی کے ضلع ملیر اور دیگر علاقوں میں بدھ کی شب کو زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے جس سے شہری خوفزدہ ہو کر گھروں اور عمارتوں سے باہر نکل آئے۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 3 عشاریہ 2 اور گہرائی 12 کلومیٹر تھی۔ بتایا گیا ہے کہ گہرائی کم ہونے کی وجہ سے زلزلے کی شدت زیادہ محسوس کی گئی۔ تاہم زلزلے کے باعث کسی جانی یا مالی نقصان کی تاحال کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
دو روز قبل بلوچستان کےضلع خضدار اور اطراف میں زلزلے کے شدید جھٹکوں نے مکانات کے درودیوار ہلا دئیےتھے۔ زلزلہ پیما مرکز کےمطابق زلزلے کی شدت 4.3ریکارڈ کی گئی، زلزلے کی گہرائی 27.76 کلومیٹر تھی ۔زلزلہ پیما مرکز کےمطابق زلزلےکا مرکز خضدار کےقریب تھا، زلزلے کے بعد لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا،تاہم کسی جانی و مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔
زلزلہ کیوں آتا ہے؟
زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ ان پلیٹوں کا نام یوریشین ، انڈیان اور اریبئین ہے۔ جب زمین کے نیچے گرمی کی شدت ہوتی ہے تو یہ پلیٹیں سرک جاتی ہیں۔زمین ہلنے لگتی ہے اور اسی کیفیت کو زلزلہ کہا جاتا ہے۔زلزلہ کی لہریں چاروں جانب پھیلتی ہیں اور زمین کانپنے لگتی ہے۔زلزلوں کا آنا یا آتش فشاں کا پھٹنا، ان علاقوں ميں زیادہ ہے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔ زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتا ہے، يہ توانائی اکثر آتش فشانی لاوے کی شکل ميں سطح زمين پر نمودار ہوتی ہے۔ دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ زلزلے بحرالکاہل کے کناروں پر ہوتے ہیں جسے رنگ آف فائر یعنی آگ کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زمین کے اندر آتش فشانی سرگرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر زلزلے فالٹ زون میں آتے ہیں، جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑتی ہیں۔ ٹیکٹونک پلیٹیں وہ پتھریلی چٹانیں ہیں جن سے زمین کی باہر والی تہ بنی ہوئی ہے۔ ان پلیٹوں کے رگڑنے یا ٹکرانے کے اثرات عام طور پر زمین کی سطح پر محسوس نہیں ہوتے لیکن اس کے نتیجے میں ان پلیٹوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب یہ تناؤ تیزی سے خارج ہوتا ہے تو شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جو جسے سائزمک ویوز یعنی زلزلے کی لہر کہتے ہیں۔