سائفر کیس میں شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس سامنے آگئے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا ہے کہ سائفر کیس ایک کرمنل کیس ہے جس میں شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، جہاں آج ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’سائفر کی تعریف کر دیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے؟‘ اس پر پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ جی میں اُسی سے شروع کروں گا‘، عدالت نے دریافت کیا کہ ’کیا یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا ہر سائفر خفیہ ہوتا ہے؟‘ پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ’قانون کے مطابق ہر کوڈڈ دستاویز سیکرٹ ڈاکیومنٹ ہوتا ہے‘، اس دلیل کے ساتھ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر گائیڈلائنز سے متعلقہ بُک بھی عدالت کے سامنے پیش کی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’کیا یہ بُک لیٹ بھی خفیہ دستاویز ہے؟‘ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’اس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ بُک صرف آفیشل استعمال کیلئے ہے کلاسیفائیڈ ہے، یہ کتاب ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر ایشو ہوئی ہے تاکہ عدالت کے فیصلہ لکھنے تک یہاں موجود رہے، یہ بُک جس شخص کے نام ایشو ہوتی ہے اس نے ہر 6 ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہی ہے‘، اس موقع پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ ’سلمان صاحب آپ خوش قسمت ہیں آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے‘۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی نے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’سائفر ٹیلی گرام سائفر سیکشن کو موصول ہوا، سائفر ای میل کے ذریعے سات مارچ کو واشنگٹن سے آیا، سائفر کو سائفر سیکشن میں نمبر لگایا گیا‘، اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا استفسار تھا کہ ’کیا سائفر کی پرنسپل کاپی آج بھی وزرات خارجہ میں موجود ہے؟‘ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ’آج بھی سائفر کی سافٹ کاپی وزرات خارجہ میں موجود ہوگی، سائفر ایک سیکریٹ ڈاکومنٹ ہوتا ہے، اس کی کاپی نہیں کی جاسکتی، سائفر کی کاپی اگر کرنی ہو تو اس کی اجازت لی جاتی ہے‘۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ’کتاب کے اندر سے پڑھ کر بتائیں سائفر کو اکاؤنٹ ایبل ڈاکومنٹ کیسے کہیں گے؟ چیپٹر آٹھ میں لکھا ہوا ہے ایک دفعہ سے انٹرسیپٹ نہیں ہوگا بلکہ بار بار کرے تو تب ہی معلوم ہو سکے گا، کیا یہ کتاب ٹرائل کورٹ کے سامنے تھی؟‘ اسپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ’دلائل میں تھی لیکن کورٹ کو نہیں دی تھی‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کسی غیر مجاز فرد کے پاس یہ ڈاکومنٹ بھی نہیں جا سکتا، کیا اٹارنی جنرل نے سرٹیفیکیٹ دیا ہے؟ یہ صرف سائفر نہیں بلکہ سارے آفیشل سیکریٹ ریکارڈ پر آتا ہے‘۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا سائفر کاپی تفتیشی افسر کو بھی فراہم نہیں کرسکتے؟‘ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ ’کیا سائفر کے کانٹینٹس کے بارے میں کسی گواہ نے کچھ کہا؟‘ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ ’اس کے حوالے سے خصوصی طور پر کسی نے کچھ نہیں کہا‘، اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ ’یہاں آپ ایک بندے کو سزا سنانے جا رہے ہیں ٹرائل چل رہا ہے، اس ڈاکومنٹ کو سیکرٹ رکھنا ایک چیز ہے لیکن عدالت کو دکھانے کا تو میکنزم ہے، قانون میں لکھا ہوا ہے اس کے لیے آپ عدالت کو خالی کرا سکتے ہیں، کیا پراسیکوشن سزائے موت نہیں مانگ رہی تھی؟ پھر بھی اس کا متن دکھانا مناسب نہیں سمجھا گیا؟ پورا کیس اس ڈاکومنٹ کے اردگرد کھڑا ہے، پراسیکیوشن نے اس سزا کے خلاف کوئی اپیل تو نہیں کی؟‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے پاس تو یہ گائیڈلائنز کا کتابچہ نہیں ہوگا کہ اگر گُم ہو گیا تو کیا نتائج ہوں گے تو سوال یہ ہے کہ کیا اعظم خان نے ان کو اس کے کانٹنٹس سے متعلق آگاہ کیا تھا؟ کیوں کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے یہ رٹا ہوا تو نہیں ہے ناں، یہ ایک کرمنل کیس ہے جس میں شک کا تمام فائدہ ملزمان کو جائے گا‘، ان ریمارکس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔