تحریک طالبان پاکستان کا پاکستان میں مستقبل کیا؟

تحریک طالبان پاکستان کا پاکستان میں مستقبل کیا؟

تحریر: مشتاق یوسفزئی

پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے بعد، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کےسینکڑوں اہلکار شہید ہوئے، پاکستان نے افغان طالبان/ امارت اسلامیہ افغانستان (آئی ای اے) پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ وہ یا تو افغانستان میں پناہ لینے والے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرے یا انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرے۔

پاکستانی حکام بارہا یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغان طالبان ملک بھر میں بڑے حملوں میں ملوث پاکستانی عسکریت پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) 2014 سے افغانستان سے کام کر رہی ہے اور پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق وہ پاکستان میں اپنی دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستانی طالبان افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقوں پر زیادہ تر کنٹرول میں تھے اور 2014 سے پہلے مالاکنڈ خطے کے کچھ حصوں کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقوں میں بھی سرگرم رہے۔

15 جون 2014 کو پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی’ آپریشن ضرب عضب ‘کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے پاس افغانستان کے سرحدی صوبوں بشمول خوست، پکتیکا، ننگرہار اور کنڑ میں فرار ہونے اور آباد ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔

سنہ 2002 سے لے کر اب تک پاکستان نے ملک میں غیر ملکی اور مقامی عسکریت پسند گروہوں کے خلاف متعدد فوجی کارروائیاںکیں تاہم وسیع پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ’آپریشن ضرب عضب‘ پاکستان کی سرزمین پر اب تک کی سب سے کامیاب اور مؤثر فوجی کارروائیوں میں سے ایک تھی۔

دریں اثناافغانستان میںٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو ابتدائی طور پر اس وقت کی افغان حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی طرف سےمشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس وجہ سے وہ پاکستان میں مؤثر طریقے سے حملے کرنے کے قابل نہیں تھے، جس کی بنیادی وجہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے نتیجے میں موثر سرحدی انتظام تھا، جو اس وقت پاکستان کے لئے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک تھا۔

ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے پاکستان میں داخل ہونے اور اکثر حملے کرنے میں ناکام رہنے کی ایک اور وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی اور خاص طور پر عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں ان کے درمیان واضح ہم آہنگی تھی۔جن میں سوات، بونیر، شانگلہ، دیر اپر، دیر لوئر اور قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔

اس دوران ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے یہ یقین کرنا شروع کر دیا کہ وہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اپنی جنگ ہار گئے ہیں اور ایک خاص معاہدے کے تحت سیکورٹی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیے ۔
تاہم پاکستانی طالبان کوجن دو عوامل نے بااختیار بنایا وہ 2021 میں اس وقت کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ شروع کیا گیا امن عمل تھا، جسے اس وقت کی فوجی قیادت کی حمایت حاصل تھی اور دوسرا جب افغان طالبان افغانستان میں اقتدار میں آئے۔

پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق 2021 میں امن عمل کے دوران 6 ہزارسے 8 ہزارٹی ٹی پی عسکریت پسند پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے کیونکہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ بندی کر رکھی تھی۔
افغان اور پاکستانی طالبان کا مل کر کام کرنے کا ایک طویل تعلق تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر رہنماؤں نے پاکستان کے انہی مدرسوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔

پاکستانی طالبان نے نہ صرف افغان طالبان کی مدد کی جب وہ ملک کے سرحدی علاقوں میں رہ رہے تھے بلکہ جب وہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو انہیں جنگجو اور خودکش بمبار بھی فراہم کیے جاتےتھے۔
افغانستان جانے سےپہلے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں تباہ کن حملے کیے اور ہزاروں افراد کو شہید کیا گیاتھا جن میں سے بیشتر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تھے۔ ان کا بڑی تعداد میں علاقوں پر کنٹرول تھا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو فوجیوں کی نقل و حرکت کیلئےکرفیو کا اعلان کرنا پڑا۔

پاکستان میں رہتے ہوئےٹی ٹی پی بڑی حد تک غیر منظم تھی اور متعدد عسکریت پسند گروہوں کا ایک ڈھیلا سا نیٹ ورک بنی رہی۔

14 دسمبر 2007 ء کو جب بعض گروہوں کے عسکریت پسند کمانڈر شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلع میران شاہ میں جمع ہوئے تو انہوں نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے ایک مشترکہ عسکریت پسند تنظیم تشکیل دی اور بیت اللہ محسود کو ٹی ٹی پی کا پہلا امیر نامزد کیا گیا۔

ٹی ٹی پی رہنماؤں کے پہلے ہی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف مل کر لڑائی کی جائے گی اور کوئی بھی دھڑا اکیلے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کرے گا۔ تاہم مرکزی قیادت نے دوسرے گروہوں پر براہ راست کنٹرول کھو دیا۔
شمالی وزیرستان کے قبائلی عسکریت پسند، جنہیں اتمانزئی وزیر کہا جاتا ہے، جن کی سربراہی حافظ گل بہادر کر رہے تھےاور جنوبی وزیرستان، کے احمد زئی وزیر، جن کی سربراہی ملا نذیر کر رہے تھے، ٹی ٹی پی کا حصہ نہیں تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے’ شوریٰ اتحاد المجاہدین ‘کے نام سے اپنا اتحاد قائم کیا اور وعدہ کیا کہ اگر انہیں نشانہ بنایا گیا تو وہ شانہ بشانہ لڑیں گے۔

شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر اور ان کے عسکریت پسندوں کے برعکس، جنوبی وزیرستان کے احمد زئی وزیر اپنےآباد علاقوں میں کبھی دشمن نہیں رہے تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ احمد زئی وزیروں کو ان کی ذہانت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلاف پہلا فوجی آپریشن ان کی سرزمین پر کیا گیا تھا اور عسکریت پسندی بڑے پیمانے پر ان کے علاقے سے ملک کے باقی حصوں میں پھیلی۔ اس کے باوجودقبائلی علاقوں میں وہ واحد لوگ تھے جو اپنے گھروں سے کبھی بے گھر نہیں ہوئےحتیٰ کہ ایک دن کے لیے بھی نہیں۔

دریں اثنا، حافظ گل بہادر، جو ابتدائی طور پر حکومت نواز طالبان کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا، نے خود کو ایک بہت خطرناک شخص ثابت کیا کیونکہ اس نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف متعدد مہلک حملے کیے۔ وہ اور اس کے جنگجو بھی پاکستان سے فرار ہو کر سرحد پار افغانستان میں آباد ہو گئے۔

گل بہادر کے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں کچھ دوست تھے،مگروہ محسود اور اتمانزئی وزیروں کے درمیان قبائلی اختلافات کی وجہ سےباضابطہ طور پر ٹی ٹی پی میں شامل ہونے سے گریز کر رہے تھے۔
افغانستان میں ان کے قیام نے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان سے سیکھنے کے قابل بنایا۔

تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو احساس ہو چکا ہے کہ انہوں نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں اور پاکستان میں عوامی مقامات پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے انعقاد سے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ جس وجہ سے وہ اب عوامی مقامات پر حملے کرنے سے سختی سے گریز کر رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے جنگجو فوج، پیرا ملٹری فرنٹیئر کور، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ضرب عضب آپریشن کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں لوگ ٹی ٹی پی کے خلاف اپنی فتح کا جشن مناتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ ٹی ٹی پی ٹوٹ چکی ہے اور دوبارہ کبھی حملہ نہیں کر سکے گی۔

تاہم مفتی نور ولی محسود عرف ابو منصور عاصم کی نئی قیادت میں ٹی ٹی پی نے دو اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی۔انہوں نے اپنے جنگجوؤں کی تربیت کی اورنیٹو اور افغان افواج سے جدید ترین ہتھیار حاصل کیے۔

جب 2022 میں نئی مخلوط حکومت کیساتھ ان کے امن مذاکرات ناکام ہوئے کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں اس وقت کی حکومت نے عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر دیاتھا، تو ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ اپنی ایک سال کی جنگ بندی ختم کر دی اور اپنے حملے دوبارہ شروع کر دیے۔

انہوں نے پاکستان میں اپنے مخالفین کو اس وقت حیران کر دیا جب پشاور میں پولیس فورس پر اپنے ایک حملے میں نائٹ ویژن چشموں جیسے کچھ جدید آلات کا استعمال کیاگیا۔
اس وقت خیبر پختونخوا کی پولیس کے پاس جدید ہتھیار اور آلات نہیں تھے۔

ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اپنے ڈھانچے کو نئی شکل دی ہے۔ اب ان کے پاسشیڈو انتظامی ڈھانچہ ہے۔ رہبری شوریٰ یا مرکزی قیادت کونسل کو اب تمام فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ واحد اتھارٹی ہے جو اپنے لوگوں کو بھرتی اور برطرف کر سکتی ہے۔

تاہم انہیں اب افغان طالبان حکومت کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی قیادت کو سنجیدگی سے متنبہ کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں اور پاکستان میں بڑے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول نہ کریں۔

گزشتہ سال جب ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے ضلع چترال کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ علاقے پر قبضہ کیا تو اس سے پورے پاکستان میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

اس کے ردِعمل میں پاکستان نے طورخم بارڈر کو بند کر دیاجو زمین سے گھرے افغانستان کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ افغان حکومت نے چترال سے ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو واپس لانے کے لئے اپنے کمانڈوز بھیجے اور انہیں چند ہفتوں کے لئے افغانستان کی پل چرخی جیل میں بھی رکھا۔

ٹی ٹی پی قیادت نے اسے سنجیدگی سے لیا اور انہوں نے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے قبائلی اضلاع کے دور دراز پہاڑی علاقوں میںپناہ گاہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔

عسکریت پسند نیٹ ورک کے ذرائع کے مطابق اس سال انہوں نے افغان طالبان پر انحصار کم کرنے کے لیے ریکارڈ تعداد میں جنگجوؤں کو پاکستانی قبائلی اضلاع میں بھیجا ہے۔

حال ہی میں خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی انجینئرز پر حملہ جس میں پانچ چینی انجینئرز ہلاک ہوئے تھے، افغان طالبان پر دباؤ بڑھ گیا ہے، تاہم ٹی ٹی پی نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ایک سینئر رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “چین پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، لہذا ہم انہیں کبھی نشانہ نہیں بنائیں گے۔

ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد کے بارے میں کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں ہیں ، لیکن اندرونی ذرائع کے مطابق 300 سے زیادہ چھوٹے ، بڑے جنگجوؤں کے گروہ ہیں اور ہر ایک گروہ سینکڑوں مسلح جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔

ٹی ٹی پی کے رکن نے کہاکہ ٹی ٹی پی میں 25ہزارسے زیادہ مسلح اور تربیت یافتہ جنگجو ہیںاور ان کے علاوہ رواں سال مزید 5ہزار جنگجوئوں کو گروہ میں شامل کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی مجاہدین کے 50 سے زیادہ گروہ ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنے رہنما حافظ نور ولی محسود سے بیعت کی ہے۔ چونکہ موجودہ حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں سے بات نہیں کرے گی لہذا آنے والے موسم گرما میں پاکستان میں تشدد میں اضافے کا امکان ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *