تحریر: نوید صدیقی
17 اپریل، 2024 بدھ
بہاول نگر میں پولیس کی جانب سے ایک فوجی اہلکار کے گھر پر چھاپے اور پھر چند فوجی اہلکاروں کی جانب سے پولیس پر تشدد کا واقعہ گزشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ کوئی اسے اداروں کے درمیان لڑائی تو کوئی اسے پولیس کی مظلومیت اور فوج کے ظلم کا رنگ دے رہا ہے۔ لیکن ایسے واقعات آئسولیشن میں نہیں ہوتے، بلکہ ان کے پس پردہ کئی ایسے عوامل ہوتے ہیں جو ایسے واقعات کو موجب بنتے ہیں۔ بہاول نگر واقعہ کے پیچھے چھپے ایسے ہی سماجی، سیاسی اور انتظامی محرکات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں، جس سے شاید سوشل میڈیا پر پھیلی بہت سے دھند چھٹ جائے اور حقیقت کا پردہ چاک ہو۔
ملک میں اداروں کے درمیان مالی، انتظامی اور قانونی امور پر نوک جھونک کی یوں تو کئی مثالیں ہیں لیکن پولیس سے جڑے ایک تنازعہ کو سمجھنے کے لیے آپ کو اسلام آباد لیے چلتے ہیں، جہاں چند ہی ماہ قبل ایک کسٹمز حکام نے ایک اعلیٰ پولیس افسر کی گاڑی کو قبضے میں لے لیا تھا۔ پہلے تو ہمیشہ کی طرح اصل واقعہ پس پردہ چلا گیا اور منظر نامے پر وہی دھند چھائی رہی کہ کسی کی جرات کہ پولیس افسر کی گاڑی کو ضبط کرے؟ لیکن جب حقیقت فاش ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اعلیٰ افسر نان کسٹم پیڈ گاڑی دبائے بیٹھے تھے جس پر کسٹمز حکام نے محض اپنی ڈیوٹی انجام دی اور یوں پولیس کی صفوں پر طیش کی حالت طاری ہو گئی۔
ایسی ہی ایک مثال اسلام آباد کے وفاقی ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کی ہی جس کے چند افسران نے شہر کے سیکٹر ای الیون میں ایک قیمتی پلاٹ پر اس طرح قبضہ جمایا کہ خود کو حساس ادارے کا ملازم ظاہر کیا۔ کاغذی کاروائی بھی کر لی۔ پیسہ بھی ہضم ہو گیا۔ لیکن حقیقت کھلنے پر حساس ادارے کے وہ افسران جن کا نام استعمال کر کے زمین پر قبضہ کیا گیا تھا، انہوں نے سی ڈی اے افسران کی خوب باز پرس کی۔
مندرجہ بالا دونوں واقعات کو اگر ایک مخصوص عینک سے دیکھا جائے تو یہی معلوم ہو گا کہ پہلے واقعہ میں کسٹمز نے پولیس کی سلامتی پر حملہ کیا تو دوسرے میں حساس ادارے نے سی ڈی اے کی توہین کی۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب تک بارش برستی رہے منظر دھندلا ہی رہتا ہے۔ اصل منظر تو کھل کر تب ہی سامنے آتا ہے کہ جب گھٹا چھٹ جائے اور بادل برس چکا ہو۔ دونوں واقعات میں ایک جانب سے قانون کی خطر خواہ خلاف ورزی ہوئی تو دوسرے ادارے کے افسران نے اپنی کرنی کر دکھائی۔
اب واپس چلتے ہیں بہاول نگر۔ جہاں ویڈیوز اور سوشل میڈیا مہم کے پیچھے بہت کچھ چھپا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک بھر بالخصوص پنجاب میں پولیس کی جانب سے جھوٹے مقدمے، گھروں پر چھاپے اور معصوم لوگوں کو مقدمات میں پھنسانا تو معمول ہے ہی، ایک اور ظلم جو ملک و قوم کے ساتھ برتا جاتا ہے وہ ٹھیک ٹھاک نوعیت کے مقدمات میں غلط طریقے سے مقدمات کا اندراج، گرفتاری، چھاپے اور تفتیش کے اوٹ پٹانگ طریقے ملزمان کو معصوم بنا ڈالتے ہیں۔
شاید لوگوں کی یاداشت اتنی بھی کمزور نہیں ہے انہیں ضرور ساہیوال میں جعلی پولیس مقابلہ بھی یاد ہوگا جب 19جنوری 2019کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں لاہور سے آنے والے خاندان کو بچوں سمیت گاڑی میں نشانہ بنایا تھا لیکن اب وہی پنجاب پولیس مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے، بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ضرور ہوتا ہے، شاید پولیس کے ساتھ وہی ہوا جو وہ عام سادہ لوح و مظلومیت کے شکار عوام کے ساتھ کرتے تھے۔ لیکن جو بھی ہوا شاید ٹھیک نہیں ہوا اس سے نقصان اور بدنامی ملک کی ہوئی ہے نہ کہ کسی ادارے کی۔افسوس اس بات اور سوچ پر بھی ہوتا ہے جس میں بھارت میں فوج کی پولیس مخالف کاروائیوں کی مثال دی جاتی ہے۔
بہاول نگر میں ان ہی دو واقعات میں سے ایک سرزد ہوا ہے؛ یعنی یا تو معصوم کو قصور وار بنانا مقصود تھا، یا پھر غلط طریقے سے گرفتاری اور چھاپے سے قصور وار کو معصوم بنا دیا گیا اور پھنس گئی خود پولیس!
یوں یہ کہنا درست ہے کہ بہاول نگر واقعہ میں مسئلے کی اصل جڑ وہی ہے جو بہت سے دیگر واقعات میں رہی یعنی پولیس کا غلط طریقہ کار۔ اگر پولیس درست طریقہ سے تفتیش و تحقیق کا عمل چلاتی اور حسب ضابطہ سرکاری ملازم کی گرفتاری کے لیے اس کے محکمے کو اطلاع دینے سمیت دیگر قانونی تقاضے پوری کرتی تو کبھی ایسا واقعہ درپیش نہ آتا۔ رہی بات پولیس پر تشدد اور فوجی اہلکاروں کے طیش میں آنے کی تو یقیناً فوجی اہلکاروں کے لیے بھی ایسا عمل اٹھانا قطعاً درست نہیں تھا اور انہیں بھی حسب ضابطہ بھی معاملہ سلجھانا چاہئے تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ پہلا پتھر کس نے مارا؟
سوشل میڈیا مہم میں فوج پر بہت سا کیچڑ اچھالا گیا ہے تاہم ساہیوال حادثہ ہو یا اسلام آباد میں اسامہ ستی کا قتل ۔۔۔ الزام تو پولیس کے سر بھی بہت سے ہیں۔ اگر پولیس کے اختیارات سے تجاوز کی گردان نکالی جائے تو یقیناً ڈیٹا اس دلیل کے حق ہی میں آئے گا کہ پولیس کو اپنی کَل بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ یہی بات بہاول نگر واقعہ پر بھی صادق آتی ہے۔ پولیس کا زور زبردستی معصوم شہری تو سہہ لیتے ہیں لیکن اب کی بار پولیس کی ٹھنی ہے اپنے سے کچھ زیادہ زورآور کے ساتھ، اور پھر پہلا پتھر بھی پولیس ہی نے مارا۔ اس لیے زیادہ آہ و بکاہ کی بجائے پولیس اپنی کل سیدھی کرے۔ فوج سے مقابلے کی بجائے پولیس اگر اپنا کام درست طریقے سے کر لے تو شاید کراچی اور لاہور سمیت ملک بھر میں شہری ڈاکوؤں، لٹیروں سے بچ پائیں۔