کسی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی سزا ختم نہیں ہوسکتی، گورنر پنجاب

کسی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران خان کی سزا ختم نہیں ہوسکتی، گورنر پنجاب

گورنر پنجاب نے کہا ہے کہ عمران خان کو اپنی سزا کاٹ کر ہی رہائی ملے گی، کسی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سزا ختم نہیں ہوسکتی۔

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے آزاد ڈیجیٹل کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ کیا ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا، کیا آصف زرداری کو 14سال جیل میں قید نہیں کیا گیا۔ کل اگر ہم اور تحریک انصاف کسی سٹیج پر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو بھی ہمارے پاس کوئی اخلاقی جواز یا ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ ہم ایگزیکٹو آرڈر کے تحت عمران خان کی سزا ختم کر سکیں۔ یہ ایک جوڈیشل سسٹم کے تحت ہی ممکن ہے یا پھر انہیں اپنی سزا پوری کرکے ہی رہائی ملے گی۔

گورنر پنجاب نے کہا ہے کہ فی الحال چیف الیکشن کمشنر کے طور پر قاضی فائز عیسیٰ کے نام پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی اور نہ میرے علم میں ہے۔ تاہم اگر انہیں چیف الیکشن کمشنر بنادیا جائے تو ایسی کوئی بُری بات بھی نہیں۔

سردار سلیم حیدر خان نے آزاد ڈیجیٹل کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ پیپلزپارٹی کی سی ای سی میٹنگ میں بھی اس حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ہوا۔ اگر قاضی فائز عیسیٰ کو چیف الیکشن کمشنر بنایا جاتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، میں سمجھتا ہوں انہوں نے ایسا کوئی بُرا کام نہیں کیا۔ جن لوگوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا انہیں ہیرو بنا دیا گیا اور جو شخص آئین و قانون پر چلتا رہا اس کیساتھ یہ سب مناسب نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ کیساتھ ہمارا اتحاد جیسے چلنا چاہئے تھا ویسے نہیں چل رہا۔ جو ڈرائیونگ سیٹ پر بڑا ہوتا ہے اس کا کام ہوتا ہے دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا جیسے کہ 2008 سے 2013 تک جب پیپلزپارٹی ڈرائیونگ سیٹ پر تھی تو سب کو ساتھ لے کر چلی۔ حالانکہ ہماری تو اتنی اکثریت بھی نہیں تھی، مانگے تانگے کی حکومت تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم بلوچستان کی پارٹیوں کو، ن لیگ کو سب کو ساتھ لے کر چلے، ہم نے اٹھارویں ترمیم بھی پاس کروائی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) صرف ایک پیپلزپارٹی کو مطمئن نہیں کر سکتی تو میں کیا کہوں۔ مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرنے کا فیصلہ پارٹی کی لیڈر شپ کرے گی تاہم آج تک کی صورتحال کوئی خوش کن نہیں ہے۔ نہ ہماری لیڈر شپ مطمئن ہے اور نہ پنجاب کی پارٹی مطمئن ہے۔

گورنر پنجاب نے مزید کہا کہ اتحادی حکومت ایسے چلتی ہے کہ سب کو ساتھ بٹھا کر فیصلے کیے جائیں اور اسمبلی میں سب کو اعتماد میں لیا جائے اور چیزوں کو آگے لے جایا جائے۔ ہم ایک سال سے ن لیگ کو برداشت کر رہے ہیں، چھ ماہ مزید کرلیں گے اور اگر صورتحال یہی رہی تو ساتھ چلنا مشکل ہوگا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *