پشاور: آئی جی پی ذوالفقار حمید نے مجموعی امن و امان صورتحال اور ہمسائے ملک افغانستان کیساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ طور پر اقدامات کرنے کیلئے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کو سراہا اور کہا ہے جو بھی فیصلہ حکومت کرے گی، وہ دونوں ممالک کیلئے بہتر ہوگا۔
آئی جی نے بتایا کہ پولیس فورس کا اولین مقصد عوامی مسائل کا حل اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔
پشاور میں میڈیا بریفنگ کے دوران آئی جی کے پی ذوالفقار حمید نے کہا کہ پولیس پٹرولنگ کو مزید مؤثر بنایا جائے گا اور عوام کی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے فورس کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی (کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) اور انویسٹیگیشن کی استعداد کار کو بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
آئی جی پی نے مزید کہا کہ پولیس فورس کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور پولیس کی عمارتوں کو مزید بہتر بنانے کے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فورس کے وسائل میں کمی کو پورا کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بھرپور کوششیں کی جائیں گی تاکہ خیبر پختونخوا پولیس کو پاکستان کی بہترین فورس بنایا جا سکے۔ پولیس کے عوامی رویے کو بھی مزید بہتر کیا جائے گا تاکہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے والی فورس قائم کی جا سکے۔
آئی جی پی ذوالفقار حمید نے یہ بھی بتایا کہ خیبر پختونخوا پولیس کی تعداد 1 لاکھ 30 ہزار کی بجائے 1 لاکھ 12 ہزار ہے، اور نئی بھرتیوں اور ترقیوں کے ذریعے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ لانگ رینج والے اسنائپر گنز خریدے جا رہے ہیں اور ان کی تربیت کے لیے جہلم یا کھاریاں میں خصوصی سیشنز کرائے جائیں گے۔
آئی جی پی نے ملاکنڈ میں لیویز فورس کی موجودگی کے حوالے سے کہا کہ قانون میں ترمیم تک یہ فورس موجود رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا تعلق 1979 سے ہے جہاں سے اسلحہ اور ہیروئن آتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے اور کسی بھی صورت میں پیچھے نہیں ہٹنا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پولیس فورس میں پریشانی کے باوجود بلیم گیم کے بجائے میدان میں رہ کر مشکلات کا مقابلہ کیا جائے گا۔ ہم نے ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہے اور دشمن کو شکست دینی ہے، یہی ہمارا عزم ہے۔
آئی جی پی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ پولیس فورس کا ساتھ دیں تاکہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے اور خیبر پختونخوا کو ایک محفوظ اور ترقی یافتہ مقام بنایا جا سکے۔