حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ایوان میں پیش کر دیا۔ اس موقع پر انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مقررہ مدت میں مقدمات کے ٹرائل مکمل نہ ہوئے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ سے ایک سال کے اندر مکمل کرنا ہوگا۔
وزیر قانون نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ ماڈرن ڈیوائسز کو قانون شہادت میں شامل کرنے کے لیے ترامیم کی جا رہی ہیں تاکہ نظام انصاف میں درپیش مشکلات کو حل کیا جا سکے۔ سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ عوام کو نظام انصاف سے متعلق مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اس ایوان سے ان مشکلات کے حل کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نظام میں اتنی خرابیاں موجود ہیں کہ مقدمات میں کسی پر کچھ ثابت نہیں ہو پاتا۔
وزیر قانون نے مجرموں کو سزا دینے کی شرح کو بھی ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک میں یہ شرح 80 فیصد کے قریب ہے، جبکہ ہمارے ملک میں یہ شرح بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کا مقصد نظام انصاف میں اصلاحات لانا اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔
ان ترامیم کے ذریعے حکومت فیک نیوز کی روک تھام اور اس سے متعلق سخت سزاؤں اور جرمانوں کا تعین کرنے جا رہی ہے۔ ترمیمی بل میں فیک نیوز پھیلانے والوں کے لیے پانچ سال تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس بل کا مقصد سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اس کی تشہیر کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کا ہے تاکہ عوام کو گمراہ کن اطلاعات سے بچایا جا سکے۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل کیا ہے؟
مجوزہ ترمیم کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاترقائم کیے جائیں گے۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی مجاز ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز بھی ہو گی۔
پیکا ایکٹ کی وائلیشن پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کاروائی کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
یہ اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، جن میںسیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا۔چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لئے کی جائے گی۔
حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر پانچ اراکین میں دس سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی اورسافٹ وئیر انجنئیر بھی شامل ہوگا۔اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل اور نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہو گا۔اتھارٹی کا چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے۔ نئی ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قراردیا گیا۔
اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جا سکے گا۔
پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیے جا سکیں گے۔ ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کاؤنسل قائم کی جائے گی۔سوشل میڈیا شکایات کاؤنسل پانچ اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہو گی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کے تحت ٹربیونل کا قیام
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لئے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا۔ ٹربیونل میں ایک صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لئے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔ ایجنسی کا سربراہ ڈائرکٹر جنرل ہو گا، تعیناتی تین سال کے لئے ہو گی۔ اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔ نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔