خیبر پختونخوا کو بلٹ پروف گاڑیوں کی شدید قلت، سیکورٹی خدشات بڑھ گئے

خیبر پختونخوا کو بلٹ پروف گاڑیوں کی شدید قلت، سیکورٹی خدشات بڑھ گئے

خیبر پختونخوا حکومت کی 11 بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کے قابل نہیں رہی جس کی وجہ سے بد امنی اور سیکورٹی کے مسائل سے دوچار اس صوبہ کو بُلٹ پروف گاڑیوں کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے انتظامی امور چلانے کے ذمہ دار ادارے، محکمہ ایڈمنسٹریشن، کو بھی قواعد و ضوابط کے تحت سرکاری پروٹوکول کے لیے درکار گاڑیاں دستیاب نہیں ہیں۔  2010 میں امریکہ نے صوبائی حکومت کو چار بی سکس لیول لینڈ کروزر گاڑیاں ڈونیٹ ( عطیہ ) کی تھیں لیکن اس میں صرف چیف سیکرٹری کی زیراستعمال گاڑی ٹھیک ہے جبکہ باقی تینوں گاڑیاں—جس میں سے ایک وزیر اعلیٰ کے پاس بھی ہے—ناقابل استعمال حالت میں ہیں۔ جس کی مرمت پر زیادہ خرچہ آنے کی وجہ سے اس کی مرمت نہیں کی جارہی ہے۔

سن 2011 میں 11 لینڈ روور جیپ جن کو بعد میں بلٹ پروف کیا گیا تھا میں سے سات گاڑیاں ناقابل استعمال ہو چکی ہیں جبکہ چار گاڑیوں میں ایک ایک گاڑی مالاکنڈ، کوہاٹ، مردان اور پشاور کے کمشنروں کے زیر استعمال ہے۔ اسی طرح سن 2010 میں ٹویوٹا کرولا الٹس 1800 سی سی کی چھ گاڑیاں خریدی گئیں جن کو اگلے سال بلٹ پروف کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک گاڑی ناقابل استعمال ہے جبکہ باقی ماندہ پانچ گاڑیوں میں سے ایک ڈپٹی کمشنر سوات، ایک کمشنر بنوں، ایک رکن صوبائی اسمبلی انور خان، ایک محکمہ ہوم اور ایک پشاور ہائی کورٹ کے زیر استعمال ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کسی بھی اہم شخصیت سمیت بیرون ملک سے کوئی بھی وفد آنے کی صورت میں محکمہ ایڈمنسٹریشن مطلوبہ سیکورٹی اور پروٹوکول فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

اس کے علاوہ خیبر پختونخوا حکومت نے دو جون 2014 کو ٹیوٹا فرنٹیئر موٹرز پشاور سے چار وی ایٹ بُلٹ پروف گاڑیوں کی خریداری کا معاہدہ کیا۔ ایک گاڑی کی قیمت تین کروڑ 62 لاکھ 64 ہزار روپے طے کی گئی اور صوبائی حکومت نے چار گاڑیوں کے 14کروڑ 50 لاکھ 56 ہزار روپے کمپنی کو پیشگی ادا کر دیئے۔ معاہدے کے تحت کمپنی 80 دنوں کے اندر مذکورہ گاڑیاں حکومت کے حوالے کرنے کی پابند تھی لیکن تکنیکی خرابیوں (ٹیکنکل فالٹ) کی وجہ سے صوبائی حکومت نے گاڑیاں لینے سے انکار کر دیا اور معاملہ عدالت جا پہنچا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے 10 سال بعد صوبائی حکومت کو خیال آیا اور 6 اگست 2024 کو وزیر اعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے اینٹی کرپشن برگیڈیئر (ریٹائرڈ) مصدق عباسی کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔

ذرائع کے مطابق ان بُلٹ پروف گاڑیوں کے شیشے اور ٹائر جن کی میعاد پانچ سال ہوتی ہے پر دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ کمیٹی نے کابینہ کو انہی گاڑیوں میں نئے بُلٹ پروف ٹائرز اور شیشے لگانے کی سفارش کی جس کا آدھا خرچہ ٹویوٹا فرنٹیئر برداشت کرے گی جبکہ باقی آدھا صوبائی حکومت ادا کرے گی۔ اس فیصلہ کو کابینہ نے بھی منظور کر لیا جبکہ ان گاڑیوں میں موجود تکنیکی خرابیاں—جن کی وجہ سے محکمہ ایڈمنسٹریشن گذشتہ دس سالوں سے یہ گاڑیاں نہیں لے رہا تھا—اب بھی جوں کی توں موجود ہیں۔ نیز ڈیلیگیشن اف فنانشل پاور رولز 2018 کی سیکشن 3 کے تحت سرکاری گاڑی 12 سال تک زیر استعمال رہے یا 3 لاکھ 15 ہزار کلو میٹر تک چل جائے تو اسے ایکسپائرڈ تصور کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ٹیوٹا فرنٹیئر سے لی جانے والی گاڑیاں ڈیڑھ سال بعد ایکسپائرڈ ہو جائیں گی ۔

دوسری طرف صوبائی حکومت نے وزیر اعلیٰ کے استعمال کے لیے سن 2021 میں وفاقی حکومت کے اداراہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی نیلامی میں 10 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بی ایم ڈبلیو بلٹ پروف گاڑی خریدی جو اب بھی وزیر اعلیٰ کے زیر استعمال ہے۔ قانون کے مطابق صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان، وزراء اعلیٰ، گورنرز، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور غیر ملکی وفود کو پروٹوکول دینا صوبائی محکمہ ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے۔ فی الوقت محکمہ ایڈمنسٹریشن کے پُول میں 75 گاڑیوں کا ہونا لازمی ہے لیکن ان کے پاس پُول میں قابل استعمال گاڑیاں 10 سے بھی کم ہیں۔ جبکہ بیشتر بڑی گاڑیاں رولز کے برعکس وزراء، معاونینِ خصوصی اور مشیروں کو دی گئی ہیں کیونکہ رُولز کے تحت وزراء، مشیر اور معاونینِ خصوصی 1800 سی سی تک کی گاڑیاں استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی کے ممبران کو سرکاری گاڑیاں الاٹ نہیں کی جا سکتیں لیکن ایک بلٹ پروف گاڑی ایک رکن صوبائی اسمبلی انور خان کے زیر استعمال ہے۔

ذرائع کے مطابق ضم شدہ قبائلی اور جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر وہاں کی انتظامیہ کو بُلٹ پروف گاڑیاں دی جانی چاہئیں تھیں لیکن انہیں گاڑیاں نہیں دی گئی ہیں۔
ماضی میں کمشنر مالاکنڈ اور ڈپٹی کمشنر سوات کو دھمکیاں موصول ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں بُلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی گئی تھیں جو ابھی تک واپس نہیں کی گئیں۔ رابطہ کرنے پر دیر اپر سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی محمد انور خان نے بتایا کہ ان پر ماضی میں جان لیوا دھماکے ہوئے ہیں اور اب بھی انہیں سکیورٹی کے مسائل درپیش ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بلٹ پروف گاڑی واپس کر چکے ہیں لیکن کب واپس کی ہے اس بارے انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *