اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے بعد چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے ججز کو بھی دھمکی آمیز خط ملنے کا انکشاف ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 4ججز کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔ ان ججز میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین کے نام شامل ہیں۔انکشاف ہو اہے کہ ان خطوط میں نہ صرف پائوڈر موجود تھا بلکہ ڈرائونی تصاویر بھی بنی ہوئی تھیں۔خطوط کو سی ٹی ڈی کے حوالے کر دیا گیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران ججز کو موصول دھمکی آمیز خطوط پر اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری عدالت میں پیش ہوئے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ڈی آئی جی شہزاد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ چونکہ ابھی تک آئی جی اسلام آباد کافعل چارج کسی کے پاس نہیں اس لیے اسلام آباد پولیس کے تمام آپریشنز میں دیکھ رہا ہوں۔کیمیائی معائنے کیلئے نمونے بھجوا ئے گئے ہیں اور ان کی رپورٹ 3سے 4دن میں آجائیگی۔
عدالت نے ڈی آئی جی سے استفسار کیا کہ خطوط کو کہاں سے پوسٹ کیا گیا تھا؟
جس پر ڈی آئی جی نے بتایا کہ اسٹیمپ پڑھی نہیں جارہی، آج لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اس نام سے خطوط ملے ہیں۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ہر صورت ریشما کو ڈھونڈنا چاہئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی اسٹیمپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاکخانے سے آئے ہیں؟
اس پر ڈی آئی جی نے جواب دیا کہ اسٹیمپ مدھم ضرور ہے لیکن راولپندی کی اسٹیمپ پڑھی جارہی ہے۔
اس موقع پر عدالت نے دریافت کیا کہ آپ دونوں افسرا ن نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں؟
ایس ایس پی سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ نے جواب دیا کہ بظاہر راولپنڈی جنرل پوسٹ آفس لگ رہا ہے، جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوا کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے، ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات لے رہے ہیں، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ نے مقدمہ درج کیا، اب تک کی پیشرفت کیا ہے؟
اس پر ڈی آئی جی نے بتایا کہ ہم نے نمونے لیب کو بھیجوا دیئے ہیں اور ڈائریکٹر سے میری بات بھی ہو گئی ہے، چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔