خیبرپختونخوا نگران دور میں ہاتھ کی صفائی سے ادویات کی خریداری میں بڑا خوردبرد کیا گیا ہے۔ ادویات کی خریداری کے لیے قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اذاد ڈیجیٹل کو موصول ہوگئی ہے۔جس کے مطابق ایک منظم طریقہ سے اپنی مرضی کی ٹیم بنا کر رولز میں تبدیلی کی گئی اور ادویات کی خریداری میں کرپشن کے لیے راستے کھولے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2015 پروکروٹمنٹ پالیسی کے مطابق نہ صرف ادویات خریداری کا عمل مکمل کیا گیا تھا بلکہ ٹینڈر بھی جاری ہوگیا تھا اور 5 مئی 2023 کو بیڈ کھولنے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن ایک اعلیٰ افسر کی تعیناتی کے بعد انہوں نے اس تمام عمل کو منسوخ کیا اور دوبارہ 27 اپریل 2023 کو ایک نئی 5 ممبران پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔نئی تشکل کردہ کمیٹی نے پہلے سے مکمل ہونے والے عمل کو منسوخ کرتے ہوئے از سر نو کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی۔
نئی کمیٹی نے دو وجوہات کو بنیاد بنا کر پہلے سے تکمیل کے قریب عمل کو منسوخ کیا جس سے نہ صرف اسپتالوں کو ادویات کی فراہمی کا عمل تاخیر کا شکار ہوا بلکہ یہ اقدام بدعنوانی کا بھی باعث بننا۔رپورٹ کے مطابق حیران کن طور پر محکمہ صحت نے ایک ہی دن میں تمام کام سر انجام دئیے جیسا کہ کمیٹی نوٹیفکیشن جاری کرنا،اجلاس کا شیڈول دینا،از سر نو اشتہار جاری کرنے سمیت دیگر ضروری عوامل کو مکمل کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق بیڈنگ طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی جس سے کئی نقصانات ہوئے۔طبی آلات کی خریداری کے لیے ٹیسٹنگ کی شرط ختم کی گئی،ٹیکنیکل کمیٹی کا کردار ختم کیا گیا۔
فرمز کے انتخاب میں غیر متعلقہ افراد کو شامل کیا گیا۔ رپورٹ دستاویزات کے مطابق 3 ارب روپے تو صرف 14 فرمز میں تقسیم کی گئی جس میں 1 ارب روپے سے زائد کا فنڈز غیر ضروری ادویات کی خریداری کے لیے جاری کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 6 مراکز صحت کو 1081 ملین روپے کی غیر ضروری ادویات کی فراہمی کی گئی۔ یہ وہ مراکز ہے جہاں پر کئی منظور نظر افراد اعلیٰ عہدوں پر فائز کئے گئے تھیں۔
ایک کمپنی کی ادویات کو غیر معیاری قرار دینے کے باوجود بھی اسے 50 ملین روپے جاری کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق محکمہ خزانہ نے ضروری ادویات کی خریداری کے لیے 2 ارب 90 کروڑ سے زائد فنڈز جاری کیا لیکن محکمہ صحت نے 4 ارب روپے سے زائد کی ادویات کی خریداری کی۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے 16 افسران و اہلکاروں نے مل کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 4 ارب روپے کی ادویات کی خریداری میں 1 ارب 90 کروڑ روپے کی بدعنوانی ہوئی ہے۔
اس بدعنوانی میں نہ صرف سابق نگران دور کے مشیر صحت کو ذمہ داری قرار دے دیا گیا ہے بلکہ سابق سیکرٹری صحت،سابق ڈی ہیلتھ سمیت دیگر افسران کو بھی ذمہ داری قرار دے دیا ہے۔مشیر برائے انسدادِ بدعنوانی مصدق عباسی کے مطابق 80 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ مرتب کی گئی ہے جسے میں کے حوالے کی جائے گئی۔ان کے مطابق انکوائری رپورٹ میں ملوث شخصیات کی نشاہدہی کی گئی ہے۔سرکاری ملوث اہلکاروں کے خلاف اب قانون کے مطابق کارروائی بھی ہوگی