وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے انہیں افغانستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا عندیہ دیدیا ہے، جبکہ اٹھارہ ہزار کے قریب طالبان پاکستان کے اندر اور 24 ہزار دہشتگرد افغانستان میں مقیم ہیں۔ گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی کارآمد ثابت نہ ہوئی۔
وزیر اعلی ہاوس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سنٹرل لیڈر شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ 26 نومبر کے احتجاج میں 12 کارکنان جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ 139 ورکرز مسنگ ہیں، تاہم اس فہرست میں رد و بدل ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس میں عمران خان نے مزید دو افراد کو شامل کردیا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے مطالبات میں عمران خان سمیت سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے لیے بااختیار عدالتی کمیشن کا قیام، 26 ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور انہیں اپنا مینڈیٹ واپس دینا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو پی ٹی آئی کو حکومت سے فائرنگ کرنے کی توقع نہیں تھی، جس کی وجہ سے کارکنوں کو واپس کرنا پڑا، لیکن ان کا پرامن احتجاج اپنے مطالبات پوری نہ ہونے تک جاری رہے گا۔
ملک میں جاری سیاسی بدنظمی اور اس کے زندگی کے ہر پہلو پر ہونے والے اثرات کو ختم کرنے کے لیے کمیٹی قائم کر لی گئی ہے، لیکن وہ مذاکرات متعلقہ قوتوں کے ساتھ کریں گے جو بااختیار ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی ہے، بلکہ وہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے، لیکن فیض حمید نے جو کچھ بھی کیا وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کی ہدایات پر عملدرآمد تھا۔ بشری بی بی نے واضح کہا ہے کہ انہیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں، تاہم وہ عمران خان کا پیغام لے کر آئی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صحافیوں سے بات چیت میں بتایا کہ دہشتگردی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان خیبرپختونخوا کو ہوا ہے اور انہوں نے بھی پالیسی تبدیل کی ہے۔ اب پولیس کو فرنٹ لائن پر لے آیا ہے۔ پورے پاکستان کو خیبرپختونخوا کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم پہلے بھی آپریشن کے حق میں نہیں تھے اور نہ ہی اب ہیں، بلکہ مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں۔
انہوں نے افغانستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بات کی، لیکن اس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔ اب وفاقی حکومت نے انہیں افغانستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اگر وفاقی حکومت مذاکرات نہیں کرتی تو انہیں خود مذاکرات کرنے ہوں گے۔