پاکستان میں ٹوبیکو سیکٹر میں 56 فیصد تک غیر قانونی اور اسمگل شدہ اسگریٹس فروخت ہونے کی وجہ سے قومی خزانے کو ٹیکسز کی مد میں 300 ارب روپے کا سالانہ نقصان کا سامنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق انسٹیٹیوٹ آف پبلک اوپینیئن کیجانب سے حالیہ ریسرچ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک بھر میں فروخت ہونے والے 264 برانڈز میں سے صرف 19 برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس مہر لگی ہے، 245 سگریٹ برانڈز پر ٹریک اینڈ ٹریس سٹمپ نہیں ہے، مقامی طور پر تیار ہونے والے سگریٹ کا شیئر 65 فیصد، آئی پی او آر غیر قانونی طور پر سمگلڈ سگریٹ کا شیئر 35 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سگریٹ کا پیکٹ کم از کم 80 روپے میں فروخت ہورہا ہے، 197 برانڈز کا سگریٹ کم از کم قیمت سے نیچے فروخت ہورہا ہے، 166 سمگلڈ سگریٹ کے برانڈز مارکیٹ میں فروخت ہورہے ہیں۔ اسمگل زرائع سے فروخت ہونیوالے سگریٹس کی ملک میں فروخت سے قومی خزانے کو سالانہ 300 ارب روپے ٹیکسز میں نقصان کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
تقریب سے خطاب میں وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ اگر سگریٹ سیکٹر سے یہ دو سے تین سو ارب روپے کا اضافی ٹیکس آجائے تو دودھ کے ڈبے اور تنخواہ دار طبقے پر بھی عائد کردہ اضافی ٹیکس واپس ہوجائے گا وزیر اعظم شہباز شریف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک محدود ہو چکی ہے، رواں مالی سال 35 سو ارب روپے کے ٹیکسز لگائے گئے، گزشتہ 70 سال سے قائم سسٹم کے تحت ملک نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جسے کنٹرول کیا گیا، ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے کیلئے آمدن میں اضافہ اور ٹیکس چوری روکنا ہوگی، ہم اقدامات کررہے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو، گزشتہ ادوار میں ڈالر کی قلت کے باعث یومیہ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاوٴ ہوتا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو نافذ کرنے میں انتھک محنت کی ہے، ایف بی آر کو ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹیکس چوروں کو پکڑنا ہوگا، ایف بی آر انفورسمنٹ بہتر بنانے کیلئے وسائل فراہمی کی سمری منظور کی گئی ہے۔