سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے کہا ہےکہ عمران خان کی بات وہ امریکہ کی کسی خارجہ پالیسی پر اتفاق نہیں کرتے اور بیانات کی حد تک امریکہ کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہچانا چاہتے اگر وہ ڈیل آفر کریں کہ آپ مجھے اقتدار میں لائیں تو امریکہ کے لئے یہ یہ کروں گا تو ٹرمپ کو دلچسپی ہوسکتی ہے۔
نجی ٹی وی جیوز نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے میں خط لکھ دینا بڑی بات نہیں ہے ہر سال کانگریس مین خطوط لکھتے ہیں یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے، ٹرمپ بائیڈن سے بڑے اسرائیل کے حامی ہیں البتہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نیتن یاہو سے کہیں گے کہ اپنا کام جلدی کرکے جنگ بندی کردو تاکہ میں کریڈٹ لے سکوں یہ کوشش وہ ضرور کریں گے۔
سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے کہا کہ میں انسانی حقوق کا حامی ہوں اور سمجھتا ہوں کسی کو سیاسی قیدی نہیں ہونا چاہیے لیکن امریکہ کی سیاست میں تین چیزوں کا اثر ہوتا ہے ووٹوں کا اثر پاکستانیوں کے اتنے ووٹ نہیں ہیں دوسرااثر ہوتا ہے ڈونیشن کا لیکن اثر ڈالنے کا جو تناسب دیکھا جاتا ہے ایلون مسک نے ڈیڑھ دو سو ملین ڈالر خرچ کیے ہیں ان کا وزن بہت ہوگا ہمارے لوگوں نے اگر دو چار لاکھ ڈالر خرچ کیے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تیسری چیز ہے استدلال میرے بارے میں امریکہ میں یہی لکھا گیا تھا کہ میں استدلال پیش کرتا ہوں اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں ثابت کرتا ہوں کہ جو میں کہہ رہا ہوں اس میں امریکہ کا مفاد ہے جہاں تک عمران خان کی بات وہ امریکہ کی کسی خارجہ پالیسی پر اتفاق نہیں کرتے اور بیانات کی حد تک امریکہ کو کوئی فائدہ بھی نہیں پہچانا چاہتے اگر وہ ڈیل آفر کریں کہ آپ مجھے اقتدار میں لائیں تو امریکہ کے لیے یہ یہ کروں گا تو ٹرمپ کو دلچسپی ہوسکتی ہے ۔
لوگوں کا یہ سمجھنا کہ پاکستان میں جس طرح ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے بیٹے بہو سے مل لیں تو اپنا کام نکال سکتے ہیں ایسا امریکہ میں ہونا ممکن نہیں ہے جب تک امریکہ کا کوئی مفاد نہ ہو وہ ان معاملات میں نہیں پڑے گا۔ ایک طرف کہا جارہا ہے عمران خان کو کسی سازش کے ذریعے نکالا گیا دوسری طرف کہتے ہیں کہ کوشش کر رہے ہیں تو وہ کوشش کیا ہوگی وہ بیک ڈور ہی کوشش ہوگی۔