خیبرپختونخوا میں بچوں کے امراض کا واحد اور جدید ترین اسپتال 11 سال بعد بھی مکمل نہ ہو سکا۔ سال 2013 میں خیبرانسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کی عمارت پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا اور اسے 3 سالوں کی قلیل مدت میں مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی یعنی اس منصوبہ کو جون 2016 میں مکمل ہونا تھا
خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کونسا منصوبہ ہے؟
ملک کے باقی تمام صوبوں میں بچوں کے امراض کے لئے الگ اسپتال قائم ہے صرف خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ ہے جہاں بچوں کے لئے الگ اور جدید اسپتال نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے بچوں کو ملک کے دیگر صوبوں کے اسپتالوں میں علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے پشاور کے علاقہ حیات آباد میں 20 کنال رقبے پر ایک جدید بچوں کے اسپتال کا منصوبہ شروع کیا گیا جسے خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کا نام دیا گیا۔ اس اسپتال میں نہ صرف بچوں کے 17 مختلف امراض میں علاج معالجہ فراہم ہونا ہے بلکہ مختلف امراض پر تحقیق کر کے مستقبل میں اس کے روک تھام پر بھی کام کرنا ہے۔
خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کا منصوبہ تاخیر کا شکار کیوں؟
ذرائع کے مطابق فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث یہ منصوبہ گزشتہ 12 سالوں سے زیر تعمیر ہے اور تاحال یہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ذرائع کے مطابق اپنی مقرر وقت میں مکمل نہ ہونے والے اس منصوبے سے جہاں خیبرپختونخوا کے ہزاروں بچے جدید ترین علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہورہے ہے تو وہی اس کی لاگت تعمیرمیں بھی کروڑوں روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔لاگت میں اضافے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں اس منصوبے کی کل لاگت 2 ارب 20 کروڑ ( 2209 ملین) روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن منصوبے میں تاخیر کے باعث مجبوراً ابتدائی پی سی ون پر 2019 اور 2020 میں نظر ثانی کی گئی اور لاگت تعمیر بڑھ کر 7 ارب 95 کروڑ( 7955 ملین) روپے تک پہنچ گی۔ یعنی اس منصوبے کی لاگت میں5 ارب ( 5746 ملین) روپے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوگیا ہے۔دستاویزات کے مطابق اس منصوبہ کو 2009 میں منظوری کے لیے بھیجا گیا جسے جون 2012 میں منظور کیا گیا اور اس پر جون 2013 میں تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بروقت فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق نظر ثانی پی سی ون فروری 2021 میں منظور ہوئی جس میں اصل لاگت کے مقابلے میں کئی گناہ اضافہ ہوا۔
اس منصوبے کے لئے کب کتنا فنڈز جاری ہوا
ذرائع کے مطابق اس منصوبے کے لیے مختص فنڈز میں بھی بہت کم فنڈزجاری ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے بھی یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ دستاویزات کے مطابق سال 2012 اور 2013 میں اس منصوبے کے لیے پی سی ون کے مطابق 324 ملین روپے مختص کی گئی جس میں صرف 20 ملین روپے جاری ہوئی اسی طرح سال 2013 اور 2014 میں 431 ملین میں سے صرف 40 ملین جاری کی گئی 2014،2015 میں 1453 ملین مختص ہوئی اور 50 ملین جاری کی گئی، سال 2016،2017 میں 400 ملین جاری کی گئی سال 2017 اور 2018 میں ایک پیسہ تک جاری نہیں ہوا،سال 2018 اور 2019 میں 500 ملین اور 2019 ،2020 میں بھی کوئی فنڈز جاری نہیں ہوا۔ دستاویز کے مطابق سال 2020،2021 میں اس منصوبے کے لیے 499 ملین مختص کی گئی اور وہ جاری بھی ہوئی اسی طرح سال 2021 اور 2022 میں 500 ملین روپے مختص کی گئی اور 330 ملین جاری ہوئی، سال 2022،2023 کے لیے 500 میں سے 50 ملین روپے ہی جاری ہوسکی ہے۔دستاویز کے مطابق اب تک اس منصوبے پر 1022 ملین روپے سے زائد کا فنڈز خرچ ہوچکا ہے۔
اس اسپتال میں کیا خاص بات ہے
دستاویزات کے مطابق یہ 250 بیڈز پر مشتمل جدید ترین اسپتال ہے جو 20 کنال اراضی پر مشتمل ہے۔اس اسپتال کی عمارت 5 منزل پر مشمتل ہے جس میں 2 تہہ خانے شامل ہے۔اس اسپتال میں جدید آپریشن تھیٹر،لیبارٹریز ،بلڈ بینک اور ریسرچ لیب کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
اسپتال بروقت کیوں فعال نہ ہوسکا؟ حکام کیا کہتے ہیں۔
اسپتال پر تاخیر کی وجوہات کے بارے میں جب سائٹ انسپکٹر چلڈرن ہسپتال محمد بخش سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین سالوں سے یہاں کام کر رہے ہے۔ان کے مطابق اس اسپتال کا ڈھانچہ تقریبا مکمل ہے اور اس وقت یہ اسپتال تکمیل کے آخری مراحل میں ہے کیونکہ اس پر اب تک 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ان کے مطابق باقی ماندہ کام بھی جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر فنڈز کی فراہمی جاری رہی اور کوئی اور مسئلہ سامنے نہ آیا تو یہ منصوبہ اگلے سال تک مکمل ہو جائے گا۔ان کے مطابق بجلی اور اے سی نظام کی تنصیب کو وہ خود دیکھ رہے ہے اوراس پر کام جاری ہے۔ بخش کے مطابق یہ اسپتال فنڈز کی عدم ادائیگی کے باعث تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر 2013 میں تعمیراتی کام کا آغاز ہوا ہے۔ جب فنڈز بند کو جائے تو ٹھیکہ دار بھی کام بند کر دیتے ہے۔ بخش کے مطابق موجودہ حکومت اس کو بروقت مکمل کرنے میں سنجیدہ ہے اس لئے اب اس پر کام تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ ان کے مطابق یہ صوبے کے نجی اسپتالوں کے مقابلہ کا اسپتال ہے اگر یہ فعال ہو جائے تو لوگ نجی اسپتال نہیں بلکہ یہاں آئے گے اور انہیں مفت تمام سہولیات فراہم کی جائے گی۔یہ اسپتال نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پاکستان کا جدید ترین اسپتال ہوگا۔ جسے جون 2025 تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔انسپکٹر کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو روزانہ کی بنیادی پر جاری تعمیراتی کام کا جائزہ لیتی ہے رپورٹ متلعقہ حکام کو پیش کرتی ہے۔ ان کے مطابق فنڈز کی کمی نہ ہوتی تو یہ منصوبہ اب بہت پہلے مکمل ہوچکا ہوتا۔
ماہر اطفال کا اظہار خیال
خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ( کیچ ) کے بارے میں جب ماہر ڈاکٹر امراض اطفال ڈاکٹر باور شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بچوں کے علاج معالجے کا یہ صوبے میں واحد اسپتال ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کئی سالوں سے زیر تعمیر ہے اور یہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ماہر ڈاکٹر باور شاہ جو نہ صرف ہیڈ آف چائلڈ ڈیزیز مولوی جی اسپتال پشاور ہے بلکہ پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہے کا بتانا تھا کہ ملک کے تمام صوبوں میں ننھے بچوں کے لیے الگ اسپتال قائم ہے صرف خیبرپختونخوا وہ واحد صوبہ ہے جہاں بچوں کے امراض کا الگ اسپتال نہیں ہے۔ ان کے مطابق صوبے میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں بچوں کے تمام امراض کے ماہرین موجود ہوں۔ کئی ایسی امراض ہے جس میں ہم بچوں کو پنجاب ،کراچی اور دوسرے صوبوں کو بھیجتے ہے۔ ان کے مطابق کئی والدین ایسے بھی ہوتے ہے جو اپنے بچوں کو مالی مشکلات کے باعث لے جا نہیں سکتے یہی وجہ ہے ان کے بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہے۔انہوں نے بتایا کہ کیچ اسپتال کا فعال ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ملک اور خیبرپختونخوا میں بچوں کو کن امراض کا سامنا ہیں؟
ماہرین صحت کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد بچے 5 سال عمرکو پہنچنے سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہے۔اسی طرح 75 فیصد بچے پیدائش کے پہلے سال مر جاتے ہے۔ اسی طرح خبرپختونخوا بھر میں 50 فیصد بچےغذائی قلت کا شکار ہےجبکہ محدود سہولیات کے باعث 60 فیصد بچوں کو حفاظتی قطرے تک نہیں پھیلائے جاتے ہے اور وہ مختلف امراض سے بچاو کے قطروں سے محروم ہے۔
ماہرین کے مطابق خیبرپختونخوا میں 15 ملین سے زائد بچے اسپتال نہ ہونے سے صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ماہرین کے مطابق خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اسپتال فعال ہونے سے بچوں کے اموات کم ہو جائے گی۔
اس اسپتال سے جہاں بچوں کو ایک چھت کے نیچے جدید سہولیات میسر آجائے گی تو وہی اس اسپتال میں ڈاکٹرز،نرسز اور دیگر کو بھی تربیت دی جائے گی۔ اس اسپتال میں 17 مختلف شعبوں میں علاج معالجہ فراہم ہوگا جیسے کہ آنکھ ،ناک،گلا، نیورولوجی،سائکیٹری وغیرہ کی سہولت میسرہے۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ہر 10 ہزار بچوں کے لئے 1 بیڈ کی سہولت میسر ہے یعنی 9 ہزار 9 سو 99 بچوں کے لئے کوئی بیڈ موجود ہی نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق خیبرپختونخوا کے اسپتالوں میں بامشکل 10 ہزار بیڈزموجود ہونگے۔ ان کے مطابق منظم نظام نہ ہونے سے بچوں کی بیماریوں کا ڈیٹا تک نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پالیسی میکر کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کا کیا کہنا ہے؟
مشیر صحت خیبرپختونخوا احتشام خان کا خیبر انسٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے متعلق بتانا تھا کہ یہ اسپتال فعال بنانا ان کی ترجیح ہے،اس لئے ان کا ٹیم دن رات اس پر کام کر رہا ہے۔ ان کے مطابق فنڈز جیسے مسائل کا سامنا ہے اس لئے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایات ہے کہ جتنا فنڈز درکار ہے وہ جاری کرینگے لیکن یہ اسپتال ہر صورت مکمل کیا جانا چاہے۔احتشام کے مطابق اس اسپتال کو فعال بنانے سے صوبے کے عوام کو کافی سہولیات ملیں گی۔