وزارت خزانہ نے سینیٹ آف پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا۔
تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔ وزارت خزانہ نے سینیٹ آف پاکستان کو بتایا کہ ٹیکس کے معاملات بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت ریگولیٹ ہوتے ہیں اور ایف بی آر بیرون ملک سے پاکستان آنے والی ترسیلات زر پر ٹیکس نہیں لگاتا۔ تاہم کاروباری لین دین کے ذریعے حاصل کردہ غیرملکی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو پاکستان میں کاروبار یا سروسز کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔
وزارت خزانہ نے مزید وضاحت کی کہ اشیاء اور خدمات کی آمدنی پر عمومی طور پر ایک فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے جبکہ آئی ٹی خدمات سے حاصل کردہ آمدنی پر یہ شرح کم کر کے 0.25 فیصد رکھی گئی ہے۔ مقامی بینکوں کی جانب سے موصول ہونے والی ترسیلات زر پر بھی کوئی ٹیکس یا چارجز نہیں لگائے جاتے، جس کا مطلب ہے کہ وصول کنندہ رقوم کو کسی اضافی اخراجات یا ٹیکسز کے بغیر حاصل کر سکتا ہے۔ وزارت خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ ترسیلات زر بھیجنے والے افراد سے مخصوص فیس اور وی اے ٹی وصول کی جاتی ہے لیکن حکومت پاکستان کے ریبیٹ ماڈل کے تحت 100 امریکی ڈالر یا اس سے زیادہ کی گھریلو ترسیلات زر پر چارجز یا ٹیکسز سے استثنیٰ دیا جاتا ہے تاکہ ترسیلات زر کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
وزارت خزانہ نے گزشتہ تین سال کی ترسیلات زر کی تفصیلات بھی فراہم کیں، جن کے مطابق جنوری 2022 سے جولائی 2024 تک مختلف ممالک سے پاکستان کو بڑی مقدار میں ترسیلات زر موصول ہوئیں، جس نے پاکستانی معیشت کو سہارا فراہم کیا۔ مالی سال 2023 میں کل ترسیلات زر 27.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں، جو مالی سال 2024 میں بڑھ کر 30.2 بلین ڈالر ہوگئیں۔ سعودی عرب سے مالی سال 2024 میں 7.4 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 5.5 بلین ڈالر، برطانیہ سے 4.5 بلین ڈالر، اور امریکہ سے 3.5 بلین ڈالر موصول ہوئے۔
جولائی 2024 میں پاکستان کو 2.99 بلین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں، جن میں سعودی عرب کا حصہ 760.1 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات 611.2 ملین ڈالر، برطانیہ 443.5 ملین ڈالر، اور امریکہ 300.1 ملین ڈالر رہا۔