اسرائیل نے ہفتے کی صبح ایران پر فضائی حملہ کیا، جس میں اسرائیلی فضائیہ نے متعدد اہداف کو نشانہ بنایا۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ حملے ایرانی دارالحکومت تہران کے علاوہ تاریخی شہر اصفہان اور شیراز میں بھی کیے گئے۔دھماکوں کی آوازیں تہران، اصفہان، کرج اور شیراز سمیت سات مختلف شہروں میں سنی گئیں، جبکہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر اور امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی نشانہ بنے۔ تہران کے قریب فوجی اڈوں پر بھی حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں ایک عمارت میں آگ لگ گئی اور فائر بریگیڈ نے 10 افراد کو ریسکیو کیا۔
شام کے دارالحکومت دمشق اور عراقی شہر تکریت اور کرکوک میں بھی زوردار دھماکے سنے گئے۔ اس حملے میں 100 سے زائد اسرائیلی طیاروں نے حصہ لیا، تاہم ایران کی ایٹمی اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ حملے کے بعد، ایران اور عراق نے اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔
اسرائیلی فوجی ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ حملہ مکمل ہو چکا ہے اور طیارے واپس آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں ایران کی میزائل یونٹس کو نشانہ بنایا گیا، اور یہ کارروائی یکم اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے ایرانی حملوں کا جواب تھی۔ اس دوران، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع تل ابیب میں بنکر میں موجود رہے اور حملوں کی نگرانی کرتے رہے۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ اس فوجی کارروائی میں ان کا کوئی کردار نہیں، لیکن قومی سلامتی کے ترجمان نے اس کو اسرائیل کے دفاع کا حق قرار دیا۔ دوسری طرف، امریکا نے اسرائیل میں تھاڈ میزائل کی تنصیب کے بعد جرمنی سے ایف سولہ طیارے بھی مشرق وسطیٰ بھیج دیے۔
ایرانی حکام نے جواب میں کہا ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق رکھتے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اپنی فوج کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا تھا۔