حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے ممکنہ آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 2027 تک چیف جسٹس کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں ممکنہ توسیع کے امکانات ہیں۔
عدالتی اصلاحات اور ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ
حکومتی اتحاد کی جانب سے پیش کیے جانے والے جوڈیشل پیکیج میں عدالتی اصلاحات کے تحت سپریم کورٹ کے تمام ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس سے بڑھا کر 68 برس کرنے کی تجویز شامل ہے۔ اس ترمیم کے بعد موجودہ ججز کی مدت ملازمت بڑھ جاے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز اور دیگر ججز کی نئی ریٹائرمنٹ کی تاریخیں
اگر آئینی ترمیم منظور ہو جاتی ہے، تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 2027 تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔ اسی طرح جسٹس منصور علی شاہ 27 نومبر 2030 تک، جسٹس منیب اختر 13 دسمبر 2031 تک، اور جسٹس یحییٰ آفریدی 22 جنوری 2033 تک جج کے طور پر کام کریں گے۔
دیگر ججز کی ریٹائرمنٹ کی نئی تاریخیں
آئینی ترمیم کی صورت میں جسٹس امین الدین خان 30 نومبر 2028، جسٹس جمال خان مندوخیل 10 نومبر 2029، جسٹس محمد علی مظہر 4 اکتوبر 2032، اور جسٹس عائشہ ملک 2 جون 2034 تک جج کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ، جسٹس اطہر من اللہ 12 دسمبر 2029، جسٹس حسن اظہر رضوی یکم فروری 2030، اور دیگر ججز کی ریٹائرمنٹ کی تاریخیں بھی تبدیل ہو جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے دیگر ججز کی متوقع مدت ملازمت
ممکنہ آئینی ترمیم کے تحت جسٹس شاہد وحید 24 دسمبر 2034، جسٹس مسرت ہلالی 7 اگست 2029، جسٹس عرفان سعادت خان 6 فروری 2031، اور جسٹس نعیم اختر افغان 28 جون 2031 تک سپریم کورٹ میں تعینات رہیں گے۔ اسی طرح جسٹس ملک شہزاد احمد 24 مارچ 2031 اور جسٹس عقیل احمد عباسی 15 جون 2031 تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
دوسری جانب آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اہم اجلاس ہو رہے ہیں، جن میں آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ اجلاس میں آئینی پیکیج اور چیف جسٹس کی مدت میں توسیع سے متعلق ترامیم پر غور ہونے کی افواہیں ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کر چکی ہے۔
قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے درکار ووٹوں کی تعداد
قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم منظور کرنے کے لیے 224 ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہے، جبکہ موجودہ حکومتی ارکان کی تعداد 214 ہے۔ اس طرح، ترامیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں حکومت کو مزید 10 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے چیلنجز
سینیٹ میں، حکومتی اتحاد کے پاس 60 ارکان کی حمایت موجود ہے، جبکہ سینیٹ کا ایوان 96 اراکین پر مشتمل ہے اور موجودہ ارکان کی تعداد 85 ہے۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں، لیکن خیبر پختونخوا کی نشستیں خالی ہونے کی وجہ سے حکومتی ارکان کی تعداد ساٹھ ہے۔
حکومتی سینیٹرز اور قومی اسمبلی کے ارکان کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے تمام ترامیم کو براہ راست منظور کرانے کی حکمت عملی پر غور کیا ہے، اور حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نمبرز پورے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری
قومی اسمبلی کے اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے، جس میں آئینی ترامیم کا بل شامل نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ آئینی ترامیم کا بل ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اجلاس دوپہر تین بجے طلب کیا گیا ہے، اور حکومت نے اتحادی ارکان کو اجلاسوں میں حاضری یقینی بنانے کے پیغامات بھیج دیے ہیں۔
سینیٹ کے اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری
سینیٹ کے اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کر دیا گیا ہے، جس میں کوئی قانون سازی شامل نہیں ہے۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، نمبر گیم پورا ہونے پر سپلیمنٹری ایجنڈا کے طور پر آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایجنڈے میں صدر مملکت کے مشترکہ ایوان سے خطاب کی تحریک پر بحث کی جائے گی۔