چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر جج کا کچھ نہ کچھ رجحان ہوتا ہے اس لیے اندازہ کیا جاتا ہے کہ اگر کیس اس جج کے پاس لگے گا تو کسے فائدہ ہو سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ججز کارجحان دیکھتے ہوئے ہر وکیل یہ خواہش کرتا ہے کہ اسکا کیس فلانے جج کے پاس لگ جائے لیکن سکا ہرگز یہ مطلب نہیں کے اس وکیل کا جج کے ساتھ کوئی رابطہ ہے۔ اس حوالےسے چیف جسٹس نے واضح کیا کہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رہی لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ اب بینچز بنانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا نہیں ہے اور اس طرح کے موقعوں پر اس بات پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارگردگی کیسی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور بارز کے نمائندوں نے بتایا کہ کس طرح کارگردگی بہتر کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: چھٹیاں ختم،سپریم کورٹ میں آج نئے عدالتی سال کی تقریب،چیف جسٹس سربراہی کرینگے
۔مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، اور میں جب چیف جسٹس بنا تو چار سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا اور پہلا مقدمہ جو براہراست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا اوراس فیصلہ کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر تین ججز کو سونپے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا لیکن اب تو اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے،کیونکہ پہلے کاز لسٹ منظوری کے لیے چیف جسٹس کے پاس جاتی رھی اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے کہ وکیلوں کی سہولت کے لیے ہر دو ہفتے بعد کاز لسٹ جاری کی جائے۔