مارگلہ نیشنل پارک سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کے کیس کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئےکہا چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں آواز اونچی کر کے مجھے ڈرائیں گے، میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔
تفصیلات کے مطابق مارگلہ نیشنل پارک سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کے کیس کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی، دورانِ سماعت لامونتانا ریسٹورنٹ کے وکیل نعیم بخاری عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رضامندی سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کا نہیں کہا گیا بلکہ میرے موکل کے سامنے دو آپشن تھے کہ یا تو خود سے ریسٹورنٹ ختم کریں ورنہ گرا دیئے جائیں گے، انہوں نے کہا کہ میرے موکل ڈاکٹر محمد امجد 66 فیصد شیئر ہولڈر ہیں جن کو سنا ہی نہیں گیا اور سپریم کورٹ نے جب فیصلہ دیا میرے موکل ملک سے باہر تھے۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ سپریم کورٹ نے تو تمام فریقین کی رضامندی سے فیصلہ دیا ہے اور رضامندی سے 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کا کہا گیا پھر نظرثانی کس بات کی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز اور نعیم بخاری میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں آواز اونچی کر کے مجھے ڈرائیں گے، میں ڈرنے والا نہیں انہوں نے کہا کہ لامونتانا کہ مختلف شئیر ہولڈرز ہیں، اور ہمیں موثر حق سماعت نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات ،غیر ملکیوں کے لئے نئے ایس او پیز تیار
ایڈوکیٹ نعیم بخاری نےکہا کہ ماضی میں ایف آئی اے ریسٹورنٹ مالکان کیخلاف تحقیقات کر چکی ہے اورتحقیقات میں نکلا کہ مالکان نے کوئی جرم نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر بخاری آر یو سیریس؟ ایف آئی اے کا اس سے کیا کام؟ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ایف آئی اے کا اس سارے معاملے پر کیا اختیار ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میرے ملک میں کئی بار جن کا اختیار نہیں تھا وہ بہت کچھ کرتے رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود تھا پھر بھی آپ کمرشل سرگرمیاں کرتے رہے ہیں آپ قوانین کی خلاف ورزی میں ریستورانٹ چلاتے رہے جس پرنعیم بخاری نے کہا کہ لائسنس موجود تھا۔