وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے ہیڈ اساتذہ کی سالانہ کارکردگی درخت لگوانے سے مشروط کر دی ہے اور اساتذہ کو کہا گیا ہے کہ اساتذہ اس مہم میں اپنے ساتھ اسکول بچوں کو بھی مہم میں شامل کرنے کے پابند ہونگے۔
وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے سندھ کے ہیڈ اساتذہ کی کارکردگی بارے کہا ہے کہ انہیں اساتذہ کی کارکردگی شمار کی جائے گی جو اسکولوں میں درخت لگوائیں گے اور جو اساتذہ درخت نہیں لگوائیں گے ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشانہ کے ساتھ ان سے سخت پوچھ گچھ کی جائے گی ، سندھ کے اساتذہ اس مہم میں اپنے ساتھ اسکولو بچوں کو بھی مہم میں شامل کرنے کے پابند ہونگے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کے 40 فیصد پرائمری تا میٹرک کے اسکولوں میں پانی سمیت بنیادی سہولیات نہیں جس کی وجہ سے ہیڈ اساتذہ کے لیے یہ بڑا چیلنچ ہے ،یہ فیصلا محکمہ تعلیم کی جانب سے پاکستان میں بڑہتی ہوئی گرمی پد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلی سندھ نے صنعتوں اورآئی پی پیز کے حوالے سے حکمتِ عملی کا اعلان کر دیا
اس سلسلے میں بات کرتے سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کہا کہ ملک میں بڑہتی ہوئی گرمی اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ایسا فیصلہ کیا ہے کہ سندھ کے ہیڈ ٹیچراب اپنے اپنے اسکولز میں درخت لگائیں، جس سے وہ ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔اور ایسے اقدامات سے ہم گرمی سے بچ سکتے ہیں ، روان سال اور گذشتہ سال سندھ میں گرمی پد 55 ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو کہ آگ جیسا لگ رہا تھا ، اسکول کے چھوٹے معصوم بچے اگر اس موسم میں اسکول میں جائیں گے تو وہ جھلس جائیں گے کیونکہ کے اتنی گرمی ہے اس لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر درخت لگانے ہیں اور اساتذہ اپنے اسکولز میں پڑھنے والے بچوں کو اس مہم کا حصہ بنائیں گے ورنہ ان کی کارکردگی کو محکمہ تعلیم اپنی رپورٹ میں شامل نہیں کرے گا ، اور ان سے اس سے متعلق پڑھانے سے پہلےیہ سوال کیا جائیگا کہ آپ نے اسکول کے اندر کتنے درخت لگائیں ہیں۔ اور اس کے بعد وہ بچوں کو نصابی تعلیم کیسے دے رہے ہیں ۔۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت نے چین سے 15 ارب ڈالر قرض ریشیڈولنگ کیلئے کمیٹی قائم کر دی
سندھ کے مختلف اضلاع جس میں تھرپارکر ایک ایسی تحصیل ہے جہاں پر راستے اور بنیادی سہولیات نہیں ہیں بچے دور دراز علاقوں میں پیدل جاکر اسکول پہنچتے ہیں اور وہ اسکول پرائمری تا میٹرک ہیں جو بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ سندھ کا ضلع عمرکوٹ جو صحرائے تھر کا علاقہ ہے جہاں پر سینکڑوں ایسے اسکول جہان پر بچے اور بچیوں کے لیے نہ ہی پینے کے پانی کی سہولت ہے نہ ہی واش رومز ہے ۔ سندھ کے دیگر اضلاع عمرکوٹ ، مٹھی، میرپوخاص ، حیدرآباد ، لاڑکانہ ، سکھر میں بھی آپ کو ایسے اسکولز کی تعداد 30 سے 40 فیصد ہے۔ کراچی لیاری کے ایک اسکول ٹیچر نے آزاد اردو ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہیڈ ماسٹر کے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کیونکہ پودوں کو روزانہ پانی دینا اور ان کی دیکھ بحال کرنا مشکل کام ہے ، محکمہ تعلیم تو روزانہ فیصلے کرتے ہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرا پاتے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت غیر ترقیاتی کاموں میں سب سے آگے: رواں مالی سال 528 نئی گاڑیاں خریدی گئیں
تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے ایک پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر علی احمد نے بتایا کہ ہمارے یہاں پانی نہیں ہے درخت کیسے لگائیں گے اگر وزیر کا حکم ماننا ہے تو ہم پہلی مرتبہ درخت لگائیں گے اس کی بعد پانی کہا ںسے دینگے ، انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے درجوں اسکول میں آپ کو بتا سکتا ہوں جہان پر پانی کی سہولت نہیں ہے ، ہم ایسے فیصلے کو نہین مانتے اور ہم اس کے متعلق اپنی یونین سے رابطہ کرینگے ہمارا کام پڑھانا ہے درخت لگانا حکومت کا کام ہے ۔ ہم بطور ہیڈ ماسٹر درخت لگوائیں یا بچوں کو تعلیم دیں۔ ٹنڈوالھیار ضلعے کی پرائمری اسکول کے ہیڈ ٹیچر سمرین نے بتایا کہ ہم بچوں کو پڑھائیں یا درخت لگائے ۔ہم رضاکارانہ طور پر تو درخت لگا سکتے ہیں ، ویسے پابندی کے ساتھ لگانا ہمارے لیے مشکل ہے جو کہ نہ صرف میرے بلکہ تمام ہیڈ ٹیچرز کے لیے نا ممکن ہے ۔ محکمہ تعلیم ہماری کارکردگی درختوں کے ساتھ شامل نہ کرے ہم بچوں کو کیسے پڑھاتے ہیں وہ اس لحاظ سے دیکھیں ۔