معروف تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ مجھے لگتا ہے جنرل قمر جاوید باجوہ بھی بچیں گے نہیں، عمران خا ن نے جنرل فیض اور باجوہ کو استعمال نہیں کیا بلکہ ان دونوں نے عمران خان کو استعمال کیا ہے۔
حامد میر نے نجی ٹی وی جیو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل فیض تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں سے رابطے میں تھے۔تحریک انصاف کے بہت سے رہنماؤں نے آف دی ریکارڈجنرل فیض کی گرفتاری سے بہت پہلے شکوہ شکایت شروع کیا ہوا تھا۔اب اگر انکار کیا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو فائدہ ہوگیا۔جو صاحب فیض حمید کا پیغام لے کر جاتے تھے ان کو ان کا نام پتہ ہے مگر انہوں نے اپنے ساتھی کا نام نہیں لینا۔ریٹائرڈ فوجی افسران کو ایسے تو حراست میں نہیں لے لیا گیا۔یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ جنرل فیض نے ٹاپ سٹی میں کرپشن کی اس کی وجہ سے ان کو گرفتار کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار نے فیض حمید کی گرفتاری کو معجزہ قرار دے دیا
پاکستان میں ایسے درجنوں لوگ ہیں جن کا تعلق سیاست اور دوسرے شعبوں سے ہے ۔ جو آپ کو شو پر آکر بتانے کو تیار ہیں کہ ان کے گھروں میں جنرل فیض نے ڈکیتیاں کروائیں۔جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے انہوں نے پاکستان کے ایک بہت بڑے وکیل کے گھر میں ڈکیتی کروائی۔کیوں اس وکیل کاجنرل پرویز مشرف کے ٹرائل میں بہت اہم رول تھا۔وہ اس مقدمے پر ایک کتاب لکھ رہے تھے تو ان کو کتاب لکھنے سے روکنا تھا۔اس کے بعدجنرل باجوہ نے اس وکیل کو آرمی ہاؤس بلایا کھانا کھلایا اور ان سے معذرت کی۔ان کو سب پتہ ہے کہ جنرل فیض نے کور کمانڈرپشاور کے طو رپر کیاکرپشن کی وہ اور معاملات میں کیا کرپشن کرتے رہے۔
مسلم لیگ ن کی بڑی اہم شخصیا ت سے ان کے رابطے تھے۔پیپلز پارٹی کے لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔جنرل فیض نے اپنے دور میں اتنے غلط کام کئے ہیں کہ ان سب کاموں کی ایک دفعہ انویسٹی گیشن شروع نہیں ہوگی۔ جب جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن رہے تھے ۔اس وقت بھی جنرل فیض نے کوشش کی کہ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں ۔اسی طرح کچھ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ہیں جن کو سندھ ہائی کورٹ سے لایا گیا۔جنرل فیض نہ صرف سپریم کورٹ کے سینئر حاضر سروس جج صاحبان کو اپروچ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کوشش کرتے تھے کہ ان کو پیغام بھیجے جائیں کہ آپ ایسے کرلیں ۔
یہ تو پوچھا جائے گا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کچھ ریٹائرڈ اور سابق ججوں کے علاوہ حاضر سروس جج صاحبان کو میسج کیوں کرتا تھا۔جن جج صاحب کو جنرل فیض میسج بھیجتے تھے ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پرو پی ٹی آئی ہیں۔ میں نے جنگ میں کالم لکھا کے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے ۔ عمران خان نے کہا میں معاشی چیلنجز میں پھنسا ہوں میرے پاس تو عدلیہ سے محاذ آرائی کا وقت ہی نہیں ہے۔تھوڑے دن گزرے تو ریفرنس دائر ہوگیا ۔عمران خان کو صرف فیض حمید نہیں جنرل باجوہ بھی استعمال کررہے تھے۔ایک وقت ایسا آیا کہ باجوہ اور فیض کے مفادات نے ایک دوسرے سے ٹکرانا شروع کیا تو ان کی راہیں جدا ہوگئیں ۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا فیض حمید کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں ، بیرسٹر گوہرکا بڑا بیان آگیا
حنیف عباسی کو جو 25 سال قید کی سزا سنوائی گئی تھی یہ جنرل فیض نے سنوائی تھی۔جب حنیف عباسی کے بیٹے نے پٹیشن فائل کی تو ان کے گھر بندہ بھیجا گیا کہ آپ پٹیشن فائل نہ کریں آپ کے باپ نے باہر نہیں آنا۔حنیف عباسی کی گرفتاری سے قبل انہیں کہا گیا کہ آپ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں سیاست چھوڑ دیں آپ کو گرفتار نہیں کریں گے۔ جب حنیف عباسی نے انکار کیا تو ان کو گرفتارکرلیا گیا۔ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر گرفتار ہوئے ہیں ان کا آزاد کشمیر کے آخری الیکشن میں بھی بڑا کردار تھا۔اس میں کچھ شخصیات براہ راست ملوث ہیں۔یہ اربوں روپے کا نہیں کھربوں روپے کا معاملہ ہے ۔جنرل فیض نے جو کام کئے ہیں اگر ان سے ریکوری ہوجائے تو پاکستان کی معیشت کا کافی بھلا ہوجائے گا ۔