خیبر پختونخوا حکومتی عدم دلچسپی کے سبب پولیس کمپلینٹ اتھارٹی سے محروم

خیبر پختونخوا حکومتی عدم دلچسپی کے سبب پولیس کمپلینٹ اتھارٹی سے محروم

خیبر پختونخوا حکومت کی عدم دلچسپی اور پولیس کی احتساب عمل کو نظر انداز کرنے کیوجہ سے صوبے میں پولیس کے حوالے سے شکایات اور ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹیز کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا ہے۔

خیبر پختونخوا میں سات سال گزرنے کے باوجود پولیس کے خلاف شکایات اور احتساب سے متعلق سیفٹی کمیشن اور ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹیز کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور پولیس کی احتساب کے عمل کو نظر انداز کرنے کی کوششوں کے باعث روایتی طریقہ کار کے مطابق ہی پولیس کے خلاف شکایات محکمہ پولیس میں ہی جمع کرائی جا رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے پولیس ایکٹ میں سیفٹی کمیشن کے قیام کا مقصد پولیس کا احتساب اور شہریوں کی شکایات پر فوری عمل درآمد کویقینی بنانا تھا جس کے لئے صوبائی اور ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن قائم کئے جانے تھے،پولیس ایک 2017کے مطابق صوبے کی سطح پر صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جو کہ 13ممبران پر مشتمل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی ریکارڈ یافتہ اولمپئین ارشد ندیم گورنر خیبر پختونخوا کی دعوت پر پشاورمدعو

پروانشل پبلک سیفٹی کمیشن کا کام سال میں د و بار پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور کارکردگی رپورٹ صوبائی اسمبلی اوراور حکومت کو پیش کرے گی، کمیشن متاثرہ شخص کی درخواست پر ریجنل پولیس آفیسر اور ضلعی پولیس آفیسر کی تفتیش سے متعلق معاملات کے علاوہ پولیس کی زیادتیوں سے متعلق شکایات اور دیگرقسم کی شکایات کا نوٹس لینے کی پابند ہو گی، ایکٹ میں پروانشل پبلک سیفٹی کمیشن کو پولیس سے متعلق شکایت موصول ہونے پر کمیشن اسے صوبائی پولیس آفیسرکے پاس ارسال کرے گی، صوبائی پولیس آفیسر اکیس دن کے اندر اندر متعلقہ شکایت پر تحقیقات مکمل کرکے قواعد کے تحت مناسب کاروائی کرے گا، اگرکمیشن تحقیقات سے مطمئن نہیں ہے تو چیئرمین ایک اور انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر معاملے کی تحقیقات کا حکم دے گی،اسی طرح ضلعی کی سطح پر کیپٹل سٹی ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن اور ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا،جو 15ممبران پر مشتمل ہوگا مذکورہ کمیشن اسسٹنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اف پولیس کے عہدے تک کے پولیس افسروں کے خلا ف عوامی شکایات موصول ہونے پر ان شکایات کی چھان بین کرنے اور ابتدائی تحقیقات کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی شہر کے مسائل کے حل کیلئے سندھ حکومت نے تمام متعلقہ محکموں کو الرٹ کر دیا

،ضلعی پولیس آفسر کے سربراہ کے خلاف شکایت پروانشل پبلک سیفٹی کمیشن کوارسال کیا جائے گا۔کمیشن کے چیئر پرسن اور وائس چیئر پرسن کا انتخاب ممبران میں سے ہی کیا جائے گا جو کہ دو سال تک ہوگا،دیگر ممبران کے انتخاب کے لئے تین سکروٹنی کمیٹیاں تشکیل دی جائے گی، جس میں پروانشل پبلک سیفٹی کمیشن، کپیٹیل سٹی پبلک سیفٹی کمیشن اور ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کے ممبران کا انتخاب شامل ہے،حکومت اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اف پولیس یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اف پولیس کے عہدے تک کے تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کے علاوہ پولیس کی زیادتیوں کی شکایات کی انکوائری کے لئے ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹیز قائم کرے گی جو ابھی تک قائم نہیں ہو سکی ہیں۔ ہر ایک ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹی چیئرمین سمیت تین ممبران پر مشتمل ہوگی پولیس ریجنل اتھارٹی کو کسی بھی متاثرہ شخص کی جانب سے پولیس کے خلاف تحریری طورپر یا پھر حلف نامہ پر کوئی شکایت موصول ہو یا پھر وزیراعلیٰ،صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن یاڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کی جانب سے پولیس کے خلاف شکایت موصول ہوتو اتھارٹی قانون کے مطابق کاروائی کرے گا،شکایت کنندہ کو تیس دنوں کے اندر اندر کی گئی انکوائری سے اگاہ کیا جائے گا،بے جا الزامات اور غیر سنجیدہ قسم کی شکایات کی صورت میں شکایت کنندہ کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:جشن آزادی کے موقع پر روپوش حماد اظہر منظر عام پر آنے کے بعد اچانک اندھیرے میں غائب ہو گئے

اسی طرح جب ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کو شکایت موصول ہو گی تو چیئرمین مذکورہ شکایت کو ضلعی پولیس کے سربراہ کوتحقیقات اور کاروائی کے لئے ارسال کرے گی تاہم اکیس دن کے اندر اندر مذکورہ شکایت سے متعلق رپورٹ اتھارٹی کو پیش کی جائے گی،اتھارٹی چیئرمین ضلعی پولیس کے سربراہ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہے تاہم ایک چیئرمین مذکورہ شکایت کی تحقیقات کے لئے ایک اور کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں ایک ممبر اتھارٹی سے اور ایک ممبر پولیس سے لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ 2017میں کمیشن کے ممبران کی نامزدگی کے لئے سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی جانی تھی جس میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سمیت احتساب کمیشن کے چیئرمین اوردیگر کو شامل کیا گیا تھا تاہم مذکورہ سکروٹنی کمیٹی میں چیئرمین احتساب کمیشن اور چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کے اس شق کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں راٹ دائر کی گئی تھی تاہم خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق کمیشن کے قیام میں تاخیر پشاور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی رٹ کے باعث ہوئی۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *