چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو دھمکی معاملہ، وفاقی حکومت کا سخت ایکشن لینے کا اعلان

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو دھمکی معاملہ، وفاقی حکومت کا سخت ایکشن لینے کا اعلان

وفاقی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس  قاضی فائز عیسی کو دھمکی دینے کے معاملے پر سخت ایکشن کا فیصلہ کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کو دھمکی کیخلاف کارروائی کے لیے امن کمیٹی کا کمشنر آفس راولپنڈی میں اجلاس ہوا ہے۔ جس میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ، لیگی رہنما حنیف عباسی اور ضلعی انتظامیہ کے افسران شریک ہوئے ہیں۔ حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے چیف جسٹس کو دھمکی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جان سے مارنے کی دھمکی پر ٹی ایل پی رہنما ظہیر الحسن شاہ کیخلاف لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں مقدمہ درج ہو گیا ہے ۔ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے، اعلی عدلیہ کو دھمکی،کار سرکار میں مداخلت اور قانونی فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن 2024، پی ٹی آئی کی کتنی سیٹیں چھینی گئیں؟ شبلی فراز بول پڑے

دوسری جانب وفاقی وزرا خواجہ محمد آصف اور احسن اقبال نے  چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف شرانگیز پراپیگنڈے اور قتل کے فتوی کی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی آوازوں کے خلاف ریاست فیصلہ کن کارروائی کرے گی ،کسی گروہ کے سیاست مفادات کی بنا پر ریاست کسی بھی صورت ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی ،ہر خاص اور عام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو کسی کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی نہ ہی حکومت اس طرح کی رویوں کو پنپنے کی اجازت دے گی۔  پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ آج ایک گروہ کی جانب سے بے بنیاد پراپیگنڈہ شروع کیا گیا ، قاضی فائز عیسی کے حوالےسے جو بات کی گئی ہے ، ماضی اور ماضی قریب میں بار بار اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قاضی فائز عیسی کا کسی فیصلے یا بیان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ چند لوگوں کے سیاسی مفادت کے ساتھ منسلک ہے ، وہ بار بار اس مسئلے کو ہوا دے رہے ہیں ، پاکستان میں مذہب کے نام پر خون خرابے کی کوشش کی جارہی ہے، سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے وضاحت کر چکی ہے، اس حوالے سے پراپیگنڈہ بدستور جاری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہر خاص اور عام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو کسی کے قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتی ، ریاست میں اگر اس طرح کھلی چھٹی دی گئی تو ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا ، سیاسی اور دیگر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا میں عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے، انتہا پسندانہ پوسٹیں سوشل میڈیا پر لگائی جارہی ہے، حضورؐ تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بن کر آئے ،ایسے مذہب کے نام پر جو رحمت اور برکتوں کا مذہب ہے اس میں اس قسم کے فتووں کی کوئی گنجائش نہیں ، یہ سب کچھ جھوٹ پر مبنی ہے، ریاست اس پر ایکشن لے گی ۔ قانون اپنی پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا، ایسی چیزوں کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، تمام مسلمانوں کو اس بات کا اعادہ کرنا پڑے تو سمجھیں کہ معاشرے میں کوئی ایسی کمزوری ضرور ہے جس کی وجہ سے اپنے ایمان کی ظاہری حیثیت کو بار بار اجاگر کرنا پڑ رہا ہے، ایمان اپنے اعمال سے ظاہر ہونا چاہیے اور لوگ آپ کی تقلید کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام محبت اور یگانگت کا پیغام ہے ، اسلام کا یہ چہرہ ساری دنیا کو دکھائیں ۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بے بنیاد الزام کی وجہ سے ہی سزا ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کافی عرصے سے سازش چل رہی ہے، ہماری اعلی عدلیہ آئین کے مطابق فیصلے اورآئین کی تشریح کر رہی ہے ، آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے ۔ کسی گروہ کے سیاست مفادات کی بنا پر ریاست کسی بھی صورت ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی ۔

خواجہ محمد آصف نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہر شخص مذہب کو استعمال کر کے اپنی سیاسی دوکان چمکانا چاہتا ہے ،اس کی اجازت نہیں دے جائے گی ، اس طرح کا فتوی اور ایک کروڑ روپے کا اعلان کرنے سے زیادہ گری ہوئی حرکت نہیں ہوسکتی ،اس کے خلاف ایکشن سب کو نظر آئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دھرنے سے متعلق قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد سے انھیں ان کے اہلخانہ کو ٹارگٹ کیا گیا ، ان کے خلاف ریفرنس میں سابق حکومت کو شرمندگی ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ 100 فیصد جھوٹ کی بنیاد پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف فتوی دیا گیا اور ایک کروڑ روپے انعام مقرر کیا گیا ،اس سے پوری دنیا میں پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بحثیت حکومت اور قوم ایک موقع ملا ہے کہ ریاست کے خلاف اس طرح کا سلسلہ بند کیا جائے ، ماضی میں جو کوتاہیاں ہوئیں ہیں ان کےازالے کا وقت ہے تا کہ لوگ ریاست کو مذا ق نہ سمجھیں ، قانون کا مخصوص استعمال کیا جائے تو وہ قانون، قانون نہیں رہتا ۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کے سربراہ ہیں اور عدلیہ اہم ریاستی ستون ہے۔ چیف جسٹس سے متعلق بیان پاکستان کے آئین و دین سے کھلی بغاوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ طبقہ ہے جسے 2018 میں خاص مقصد کے لیے کھڑا کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کاجماعت اسلامی کے دھرنے کو سپورٹ کرنے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ جو شخص لوگوں کے ایمان پر فتوے جاری کرتا ہے وہ اللہ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ پاکستان میں آئین، عدالتیں اور قانون موجود ہیں اور کسی شخص یا گروہ کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کے قتل کے فتوے جاری کرے۔ سزا اور جزا کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو دھمکی دینا آئین سے کھلی بغاوت ہے۔ دہشت گردی، خودکش حملے اوراس قسم کی فتوے بازی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان عناصر کے خلاف قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے گا۔اس وقت مسلمانوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں فساد اور انتشار پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ کسی کو مذہب کا ٹھیکیدار نہیں ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کے خلاف کسی کا برملا یہ اعلان کرنا کہ جو ان کا سر قلم کرے اسے ایک کروڑ کا انعام دوں گا، آئین اور دین سے کھلی بغاوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی مسلمان کو اپنے عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لئےکسی جماعت سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ کسی کے ایمان کا فیصلہ انسانوں نے نہیں کرنا، یہ وہ کام ہے جو خدا نے روز قیامت کرنا ہے۔ جو شخص لوگوں کے ایمان پر فتوے جاری کرتا ہے وہ خدا کے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ پاکستان میں آئین، عدالتیں، اور قانون ہیں، یہاں کسی کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کے قتل کے فتوے جاری کرے کیونکہ سزا اور جزا کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے علما نے مل کر پیغام پاکستان کی صورت میں اس رویے کی مذمت کی تھی۔ ان کا فتویٰ موجود ہے کہ دہشت گردی، خودکش حملے اور اس قسم کی فتوے بازی کا اسلام سے تعلق نہیں، اس کا اختیار صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ یہاں لوگوں کو مذہب کے نام پر اکسایا گیا کہ وہ فتوے دیں۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شخص کے قتل پر پوری قوم کو شرمندگی برداشت کرنی پڑی۔ اسی طرح جڑانوالہ، سوات اور دیگر مقامات پر لوگوں کو سیاست چمکانے کے لیے اکسایا گیا۔ حکومت اس طرح کے رویوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے گی۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *