خیبر پختوانخوا میں سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کا معاملہ، من پسند 8 گاڑیاں نیلامی سے باہر کر دی گئیں،

خیبر پختوانخوا میں سرکاری گاڑیوں کی نیلامی کا معاملہ، من پسند 8 گاڑیاں نیلامی سے باہر کر دی گئیں،

خیبر پختونخوا میں سرکاری گاڑیوں کی نیلامی میں دو لگژری گاڑیوں سمیت 8 گاڑیوں میں ایک اعلی افسر اور سیاستدان کی دلچسپی کے باعث دوران نیلامی گاڑیوں کے کاغذات میں فرق کا بہانہ بنا کر نیلامی سے باہر کرلیاگیا۔
تیمور خان

خیبر پختونخوا میں سرکاری گاڑیوں کی نیلامی میں دو لگژری گاڑیوں سمیت 8 گاڑیوں میں ایک اعلی افسر اور سیاستدان کی دلچسپی کے باعث دوران نیلامی گاڑیوں کے کاغذات میں فرق کا بہانہ بنا کر نیلامی سے باہر کرلیاگیا کیونکہ مذکورہ اعلی حکام خود ان گاڑیوں کی خریداری میں سنجیدہ تھے.
موجود دستاویزات کے مطابق محکمہ ایڈمنسٹریشن خیبر پختونخوا نے 67 گاڑیوں، 134 موٹر سائیکلوں اور 11 سکریپ گاڑیوں کی نیلامی کے لیے اشتہار مشتہر کیاتھا اور گزشتہ مہینے 13 جون کو ان گاڑیوں کی نیلامی ہوئی جبکہ مجموعی طور پر مذکورہ گاڑیوں کی مالیت ساڑھے 8 کروڑ سے 9 کروڑ تک بنتی ہے۔نیلامی میں ان گاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کے تمام کاغذات درست اور مکمل ہوں اور محکمہ ایکسائز میں ان گاڑیوں کی اوریجنل فائلز موجود ہوں۔
ڈیلیگیشن آف فنانشل پاور رولز 2018 کے تحت نیلامی کے لیے ان گاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کو کم از کم تین لاکھ 15ہزار کلو میٹر چلایا گیا ہو یا 12 سال پرانی ہوں یا ان دونوں میں جو بھی پہلے مکمل ہو۔ نیلامی کے عمل میں ایسی گاڑیوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے جو حادثات میں اس حد تک خراب ہو چکی ہوں کہ ان کے مرمت پر بہت زیادہ خرچ اٹھتا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر گوہر علی اور روف حسن گرفتار

ذرائع کے مطابق نیلامی میں 10 سے زائد بِڈرز (بولی دہندہ) نے حصہ لیا جس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔ تاہم نیلامی کے دن گاڑیوں میں سے 8 گاڑیوں کو نیلامی سے یہ کہتے ہوئے نکال دیا گیا کہ ان کے کاغذات مکمل نہیں ہیں۔ جن گاڑیوں کو بولی سے نکالا گیا ان میں 2008ماڈل پراڈو ٹیوٹا لینڈ کروزر (رجسٹریشن نمیر جی ٹی 217 اسلام آباد)، 2008 ماڈل ٹیوٹا ویگو (رجسٹریشن نمبر اے اے 1022 پشاور)، سوزوکی کلٹس 2007 ماڈل (رجسٹریشن نمبر اے 8096) 1994ماڈل ٹیوٹا ہائی ایس (رجسٹریشن نمبر اے 1164 سوات)، ٹیوٹا الٹیس 2011 ماڈل (رجسٹریشن نمبر اے اے 1010)، ٹیوٹا کرولا 1995 ماڈل (رجسٹریشن نمبر اے 1248)، سوزوکی کلٹیس 2012 ماڈل (رجسٹریشن نمبر اے 1562) اور ٹیوٹا کرولا 2009 ماڈل (رجسٹریشن نمبر اے اے 1037) شامل ہیں جن کی مالیت ڈیڑھ کروڑ روپے بغیر ٹیکس کے بنتی ہے۔
نیلامی میں شامل بِڈر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ نیلامی میں شامل تمام گاڑیوں کی دستاویزات ٹھیک تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار ایسا ہوا کہ نیلامی کے دوران گاڑیوں کو نیلامی سے باہر کر دیا گیا۔ ’’ان گاڑیوں کو چور طریقے سے اگر کوئی خریدنا چاہتا ہے تو ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کون ان گاڑیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘

ذرائع کے مطابق محکمہ ایڈمنسٹریشن کا ٹرانسپورٹ سیکشن سرکاری گاڑیوں کی تمام ریکارڈ کو محفوظ رکھتا ہے اور انہی گاڑیوں کو فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جن کا ریکارڈ درست ہو۔ جن گاڑیوں کو فہرست سے نکالا گیا ہے ان سب کا ریکارڈ محکمہ ایکسائز میں موجود ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے، نیلامی میں شامل افراد نے بھی اس پر اعتراض کیا کہ کس طرح گاڑیوں کو نیلامی سے نکالا گیا ہے۔
نیلامی کے لیے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جبکہ اس کے ممبران میں ڈائریکٹر جنرل ایکسائز، اے ائی جی ٹیلی کیمونیکشن، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ایڈمنسٹریشن، ڈپٹی سیکرٹری ایڈمنسٹریشن، محکمہ ایڈمنسٹریشن کے سیکشن آفیسر ٹرانسپورٹ ممبر اور کمیٹی کا سیکرٹری ہوتا ہے شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق کہ دو گاڑیوں کی خریداری میں اعلی حکام اور باقی ماندہ میں ان کے ماتحت ملازمین دلچسپی رکھتے تھے جس بناء پر ان گاڑیوں کو نیلامی سے کاغذات میں فرق کا بہانہ بناکر باہر کر دیا گیا ج بکہ اس میں سے پراڈو گاڑی پر48 لاکھ روپے تک بولی گئی اور مزید بھی جاری تھی لیکن اس کو اسی ہی وقت روک دیا گیا۔ ان آٹھ گاڑیوں کے علاوہ باقی ماندہ گاڑیاں ساڑھے 8کروڑ سے 9 کروڑ روپے تک نیلام ہوئیں۔
کمیٹی کے چیئرمین وزیر قانون آفتاب عالم نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ نیلامی سے جن گاڑیوں کو باہر کیا گیا ہے ان میں سے ایک گاڑی پر 70 لاکھ بولی آئی جس سے بِڈر مکر گیا دوبارہ جب بولی ہوئی تو وہ 49 لاکھ تک گئی جس کی وجہ سے اس کو ایوارڈ نہیں کیا گیا ۔اس کے ساتھ تین کے قریب مزید گاڑیاں بھی بولی سے باہر کی گئی ہیں جن کے لئے دوبارہ بولی کا انتظام کیا جائے گا۔
نیلامی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ بولی کے وقت چیئرمین کمیٹی خود موجود نہیں تھے اور نہ ہی دیگر ممبران میں سے کوئی موجود تھا بلکہ بیشتر ممبران کے نمائندے آئے ہوئے تھے اور گاڑی پر 70 لاکھ تک بولی نہیں دی گئی تھی۔
افتاب عالم کے مطابق اس وقت ان کے پاس محکمہ خزانہ کا قلمدان بھی تھا اور وہ بجٹ بنانے میں مصروف ہونے کی وجہ سے نیلامی میں شرکت نہ کرسکیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *