آئی پی پیز کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کے معاہدے نے معاشی بحران پیدا کردیاہے ،پاکستان خطے میں مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والا ملک بن گیا۔ اس وقت گھریلو صارفین کوبجلی 60 روپے سے زائد یونٹ پڑرہی ہے ،کمرشل صارفین کو80روپے سے ، انڈسٹری صارف کو40 روپے یونٹ مل رہا ہے ،اس تما م صورتحال میں معاہدوں پر نظرثانی نہ کی گئی تو کاروبار کرنا مشکل ہوجائے گا،صنعتیں بند ہونے کے قریب آچکی ہیں۔
پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں سے دو ہزار ارب روپے سے زائد کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادا کئے جانے ہیں، آج مہنگی ترین بجلی کی بڑی وجہ یہی آئی پی پیز ہیں۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ کپیسٹی پے منٹس کے معاہدے ملک میں معاشی بحران کا بڑا سبب ہیں۔ معاہدوں پر نظر ثانی نہ ہونے کی صورت میں کاروبار ٹھپ اور صنعتیں بند ہونے کا خطرہ ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: گندم کی فی من قیمت میں بڑی کمی کر دی گئی ، آٹا بھی سستا
ماہرین کے مطابق 1994، 2002 اور 2015 کے دوران پاور پلانٹس سے کئے گئے معاہدے پورے نظام کیلئے درد سر بن چکے ، ان معاہدوں کے تحت بجلی خریدی جائے یا نہ خریدی جائے اسکی قیمت ہر صورت ادا کرنا پڑتی ہے اور وہ بھی ڈالر میں ، نیپرا رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کی اوسطاً 47.9 فیصد بجلی استعمال کی جا رہی ہے مگر آئی پی پیز کو ادائیگیاں 100 فیصد کی جارہی ہیں، دوسری طرف روپے کی گرتی قدر کے باعث کپیسٹی پے منٹس کا حجم مزید خوفناک شکل اختیار کرنے لگا ہے ، 2013 میں کپیسٹی پے منٹس کی رقم 185 ارب روپے تھی جو 2024 میں 2010 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکی ہے ۔ گزشتہ گیارہ برسوں میں آئی پی پیز کو 6 ہزار تین سو ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔
سب سے زیادہ کپیسٹی پے منٹ 2015 کے بعد قائم ہونیوالے کوئلے سے چلنے والی آئی پی پیز کو کی جار ہی ہیں، اس وقت ملک میں سب سے مہنگی بجلی امپورٹڈ کوئلے سے 60 روپے فی یونٹ تک پیدا ہو رہی ہے ، کپیسٹی پے منٹ کی مد میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی واجب الادا رقم 692 ارب ، ونڈ سے چلنے والے آئی پیز کی واجب الادا رقم 175 ارب اور آر ایل این جی سے چلنے والے آئی پی پیز کی واجب الادا رقم 185 ارب روپے ہے ، سولر اور بگاس سے چلنے والے آئی پی پیز کی واجب الادا رقم 112 ار ب اور نیوکلیئر آئی پی پیز کو واجب الادا رقم 443 ارب روپے ہے ۔
یہ آئی پی پیز معاہدے کے تحت رقم تو پوری وصول کرتے ہیں مگر انکی پیداواری صلاحیت حیران کن طور پر انتہائی کم ہے ۔ نیپرا دستاویزات کے مطابق مالی سال 2022-23 کے دوران 1200 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت رکھنے والے حب پاور پلانٹ سے صرف 2 اعشاریہ 17 فیصد بجلی ہی پیدا ہو سکی ، 421 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت والے روش پاور سے صرف 5.7 فیصد اور 1102 میگاواٹ صلاحیت کے کیپکو پاور پلانٹ سے 15.7 فیصد بجلی پیدا کی گئی، 1273 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت والے آئی پی پی سے 27.7 فیصد پیداوار ہی حاصل کی جا سکی، 1164 میگاواٹ پیداواری صلاحیت والے بھکی پاور پلانٹ سے 56 فیصد جبکہ 1243 میگاواٹ صلاحیت والے بلوکی پاور پلانٹ سے 71 فیصد بجلی ہی پیدا کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سوزوکی موٹر سائیکل خریدنے کے خواشمند افراد کیلئے بڑی آفر لگا دی گئی
نیپرا رپورٹ کے مطابق 2023 میں صرف 25 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 153 ارب روپے ادا کئے گئے ، پچاس فیصد تک پیداوار والے آئی پی پیز کو 65 ارب روپے جبکہ 75 فیصد تک یوٹیلائزیشن والے آئی پی پیز کو 214 ارب روپے ادا کئے گئے ، نیپرا دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ متبادل توانائی والے پاور پلانٹس سے بجلی کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ، ہوا سے چلنے والے بجلی گھروں سے سستی بجلی استعمال نہیں کی جارہی مگر انکی کپیسٹی پے منٹ مسلسل ادا کی جارہی ہے ۔
گورنمنٹ کی نا اہلی ،ناقص منصوبہ بندی اور آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔پاور ڈویژن حکام بھی بجلی مہنگی ہونے کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کیساتھ کپیسٹی پے منٹ معاہدوں کو قرار دیتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اگر ان معاہدوں پر نظر ثانی نہ ہوئی تو صارفین کو ہر سال بجلی استعمال کئے بغیر ہی اربوں روپے پاور پلانٹس کو دینے ہونگے ، حالیہ دنوں میں بجلی مزید مہنگی ہونے سے سرکلر ڈیٹ کم ہو گا نہ ہی بجلی نظام میں بہتری آئے گی ، صارفین سے لئے گئے یہ اربوں روپے پاور پلانٹس کپیسٹی پے منٹس کی مد میں لے اڑیں گے۔
گردشی قرضه