وزیراعظم نے بجلی صارفین کے بلو ں میں زائد یونٹس شامل کرنے پر نوٹس لے لیا

وزیراعظم نے بجلی صارفین کے بلو ں میں زائد یونٹس  شامل کرنے پر نوٹس  لے لیا

وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے بجلی صارفین کے بِلوں میں زائد یونٹس شامل کرنے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے پاور ڈویژن کو تقسیم کار کمپنیوں کے ایسے اہلکاروں و افسران کو فوری معطل کرنے اور انکے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

وزیراعظم کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت بجلی شعبے کی اصلاحات اور ملک میں شمسی توانائی کے حوالے سے اعلی ٰسطحی اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں نائب وزیرِ اعظم و وزیرَ خارجہ اسحاق ڈار، وفاقی وزراء جام کمال خان، سردار اویس خان لغاری، احسن اقبال، احد خان چیمہ، عطاء اللہ تارڑ، وزیرِ مملکت علی پرویز ملک اور متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں: سولر سسٹم پر کنکشن کرنیوالے صارفین کیلئے بڑی خبر آگئی

اجلاس میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ مصنوعی طور پر بجلی کے زائد یونٹس بِل میں شامل کرکے صارفین پر ظلم کرنے والے عوام دشمن افسران و اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ دو سو یونٹس سے نیچے تحفظ شدہ صارفین کے بِلوں میں مصنوعی طور پر زائد یونٹس شامل کرکے غیر تحفظ شدہ درجے میں شامل کرنے والے اہلکاروں و افسران کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملک میں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تیزی لائی جائے،پاکستان درآمدی ایندھن سے بجلی بنانے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں کئے گئے غلط پالیسی اقدامات کا بوجھ غریب عوام کو قطعاً برداشت نہیں کرنے دونگا،کم لاگت قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار سے صارفین کو بِلوں میں ریلیف ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سستی اور عوام میں مقبول یونائیٹڈ بائیکس کی نئی قیمتیں سامنے آگئیں

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی کہ ملک میں درآمدی ایندھن سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے اور ناکارہ سرکاری کارخانوں کو فوری طور پر بند کیا جائے،پوری دنیا قابلِ تجدید توانائی سے بجلی پیدا کر رہی ہے،پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی وسیع استعداد موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ شمسی توانائی کی استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *