جسٹس بابرستار کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو لکھے گئے خط پر اٹارنی جنرل منصور اعوان کا ردِعمل آگیا۔
تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل منصور اعوان نے جسٹس بابرستار کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مداخلت ہورہی ہے۔ ایسا تاثر بن رہا ہے جیسے عدلیہ اور ایگزیکٹو میں معاملات خراب ہورہے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ میں مداخلت کے تاثر کی پرزور نفی کرتے ہوئے کہا کہ خط کا غلط تاثر لیا جارہا ہے۔ خط لکھنے کا مقصد کوئی مداخلت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستوں کے کچھ حساس معاملات ہوتے ہیں۔ حساس معاملات میں کمیونیکیشن ضروری ہوتی ہے لیکن سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی افسر نے کوئی براہ راست رابطہ کیا اور نہ ہی وہ کرتے ہیں۔ حکومت یا کوئی ریاستی ادارہ عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ جسٹس بابر ستار سے رابطہ اٹارنی جنرل کے دفتر کے ذریعے ہوا کہ ایسی حساس معلومات ان کیمرہ کی جائیں۔ یہاں تک ہی درخواست تھی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نان فائلرز کی سمز بلاک کرنے سے روک دیا
واضح رہے کہ اٹارنی جنرل منصور اعوان کابیان جسٹس بابرستار کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو لکھے گئے اس خط پر آیا ہے جس میںانہوں نے انکشاف کیا کہ ’آڈیو لیک کیس میں مجھے پیغام بھجوایا گیا کہ پیچھے ہٹ جائو‘۔ جسٹس بابرستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے نام خط میں لکھا کہ مجھے پیغام دیا جارہا ہے کہ نگرانی کے طریقہ کار کی اسکروٹنی کرنے سے پیچھے ہٹ جائو تاہم میں نے ان دھمکیوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ خط میں مزید لکھا کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے عمل کو نقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے سے متعلق مقدمات کے بارے میں بدنیتی پر مبنی مہم کا فوکس عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے دھمکی آمیز حربہ معلوم ہوتا ہے۔جسٹس بابر ستار نے خط میں موقف اپنایا ہے کہ آڈیو لیکس کیس میں خفیہ تحقیقاتی اداروں کو عدالت نے نوٹس کیے۔ متعلقہ وزارتیں، ریگولیٹری باڈیز، آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے کو بھی نوٹس کیے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ریگولیٹری باڈیز، پی ٹی اے اور پیمراکو بھی نوٹس جاری کیے تھے۔ انہوں نے 6 مئی کوہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہیں نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا مہم کے بارے میں بتایا تھا۔